آئی کیپ نے توانائی کے شعبے کیلئے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کر دیں

ڈسکوز کی نجکاری کی مخالفت ،موجودہ ڈھانچے کے اندر نجکاری کرنا مزید نقصان دہ ہو گا، آئی کیپ اکنامک ایڈوائزری کمیٹی

پیر 15 اکتوبر 2018 18:47

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2018ء) انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکانٹنٹس پاکستان نے توانائی کے شعبے کے لیے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کر دی ہیںجس میں ڈسکوز کی نجکاری کی مخالفت کی گئی ہے۔ آئی کیپ کی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈھانچے کے اندر نجکاری کرنا مزید نقصان دہ ہو گا۔ تفصیلات کے مطابق یہ سفارشات آئی کیپ کی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی اور گورنمنٹ ریلیشنز کمیٹی کی جانب سے توانائی سیکٹر اور بہتری کی تجاویز کے موضوع پر آئی کیپ ہاس میں منعقدہ رانڈ ٹیبل کے دوران پیش کی گئیں۔

آئی کیپ کے سینئر ممبر و پاور سیکٹر اسپیشلسٹ سلمان امین نے سفارشات پیش کیں۔ کونسل ممبر آئی کیپ محمد علی لطیف نے رانڈ ٹیبل کی صدارت کی۔ اس موقع پر سیکریٹری آئی کیپ عبدالمالک بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

رانڈ ٹیبل میں کے الیکٹرک سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز محکمہ متبادل توانائی سندھ، آئی پی پیز، بروکریج ہاسز، ٹریڈ باڈیز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔

سلمان امین نے ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کے ذریعے بتایا کہ گزشتہ 18 سالوں میں بجلی کی پیداوار میں 95 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ ترسیل کی استعداد صرف 26 فیصد بڑھائی گئی ۔ اس وقت صارفین کے لیے ٹیرف کا نظام استحصالی اور غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسکوز کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا خمیازہ صارفین برداشت کر رہے ہیں۔ ڈسکوز اپنی خراب کارکردگی کو بہتر کرنے کے بجائے نقصانات میں مزید چھوٹ چاہتے ہیں۔

رکن اکنامک ایڈوائزری کمیٹی آئی کیپ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کی شرائط میں ڈسکوز کی اگلے چار، پانچ سال تک نجکاری کوقبول نہ کیا جائے۔ سلمان امین نے کہا کہ اگلے چار، پانچ سالوں میں ڈسکوز کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن بزنس کو الگ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر ملکی معیشت میں انتہائی اہم ہے،اس کا مجموعی قومی پیداوار پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

حکومتی ملکیت میں چلنے والے پیداواری پلانٹس معیشت پر ایک بوجھ ثابت ہو رہے ہیں، ان کی پیداواری استعداد خراب ہوچکی ہے۔ بجلی چوری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صوبائی و ضلعی انتظامیہ کے تعاون کے بغیر بجلی چوری کی روک تھام ممکن نہیں۔ سلمان امین نے کہا کہ کاسا 1000 نا پاکستان کی ضرورت ہے اور نا ہی اس کے مفاد میں ہے، اس کا فائدہ افغانستان اور ترکستان کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی توانائی پالیسی اور اس کی منصوبہ بندی میں ہم آہنگی نہیں رہی جس کی وجہ سے امپورٹ بل مزید بڑھ گیا ہے۔ سلمان امین نے کہا کہ آئی کیپ کمیٹی کی سفارشات کو حکومت اپنے 100 دن کے ایجنڈے میں شامل کرے تاکہ نظام میں بہتری آئے۔