Live Updates

پشاور ،خیبر پختونخوا کا648 ارب روپے کا اضافی بجٹ پیش

آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات اور وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ کی درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اضافی بجٹ پیش کررہے ہیں، تیمورسلیم خان جھگڑا جاری اخراجات کی مد میں438ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لئی180ارب روپے رکھے گئے ہیں ، بجٹ کے محصولات کا تخمینہ 648ارب روپے ہے،صوبائی وزیر خزانہ

پیر 15 اکتوبر 2018 20:23

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اکتوبر2018ء) خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمورسلیم خان جھگڑا نی648 ارب روپے اضافی بجٹ پیش کردیا جبکہ اخراجات کا تخمینہ 618ارب روپے ہے، اس طرح یہ بجٹ 30ارب روپے فاضل ہے۔انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں بجٹ اجلاس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال IMF کے ساتھ جاری مذاکرات اور وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ کی درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اضافی بجٹ پیش کررہے ہیں۔

ہماری کل متوقع آمدن 648 ارب روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 618ارب روپے ہے، اس طرح یہ بجٹ 30ارب روپے فاضل ہے۔انہوں نے کہاکہ 618 ارب روپے کے اخراجات کو جاری اخراجات اور سالانہ ترقیاتی بجٹ میں تقسیم کیا گیا ہے۔جاری اخراجات کی مد میں438ارب روپے اور ترقیاتی بجٹ کے لئی180ارب روپے رکھے گئے ہیںوزیر خزانہ تیمور سلیم خان جھگڑا نے کہا کہ سال 2018-19 کیلئے ہمارے بجٹ کے محصولات کا تخمینہ 648ارب روپے ہے۔

(جاری ہے)

یہ رقم پچھلے سال کے تخمینے 603ارب روپے سے ساڑھے سات فیصد زیادہ ہے۔ سال 2018-19میں426 ارب (66%) مرکزی حکومت سے متعلق موصول ہونے ہیں جس میں 360 ارب وفاقی ٹیکسز کی مد میں ا ور 23 ارب روپے تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں ملنے ہیں۔65ارب روپی(10%) بجلی کے خالص منافع کی صورت میں ملنے ہیں۔ جس میں 36ارب کے بقایاجات بھی شامل ہیں،41 ارب روپے (6%)صوبائی ٹیکسز اور نان ٹیکسز سے وصول ہوں گے اور71 ارب روپے (11%) بیرونی امداد کی صورت میں ملیں گے جبکہ 45 ارب روپے کی (7%) دیگر محصولات ہیںتاہم ان رقوم کا ملنا چند عوامل پر منحصر ہے۔

واضح رہے کہ پچھلے مالی سال میں اصل وصول شدہ رقم 493 ارب روپے ہے۔انہوں نے کہاکہہماری حکومت اپنے اخراجات کو618 ارب روپے تک محدود کر رہے ہیں۔اس طرح اس سال ہمارا بجٹ30 ارب روپے فاضل کا ہے۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہمیں یہ زائد رقم ضرورت نہیں یا ہم خرچ نہیں کر سکتے۔بلکہ میری یہ خواہش ہے کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ رقم ہوتی اور انشاء اللہ ہم اگلے پانچ سالوں میں زیادہ فنڈز کی فراہمی کی کوشش بھی کریں گے۔

لیکن وفاقی حکومت کو گذشتہ حکومت کے اسراف کا ازالہ کرنے کے لئیIMFسے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔جس کے لئیIMFتمام ملک میں بہتر مالیاتی نظم و ضبط کا مطالبہ کر رہا ہے اور یہ زائد بجٹ اسی سلسلے میں ہماری کوششوں کا حصہ ہے۔کیونکہ ہم ایک ملک ہیں۔اور ہم نے ملکر ہی اس کو مضبوط بنانا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس سال کے جاری اخراجات438بلین ہیں۔پچھلے سال کے جاری اخراجات کل اخراجات کا 70% تھے۔

صرف تنخواہوں اور پنشن کی کل لاگت316بلین ہے۔جبکہ پچھلے سال یہ لاگت271بلین تھی۔اس طرح یہ17%زائدہے۔یہ ر قم2010-11 میں 87 ارب روپے تھی۔جو کہ بجٹ کا صرف40%تھی۔جبکہ آج یہ بجٹ کا50فیصد ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ہم اپنے لوگوں کے لیے روزگار کے دیگر مواقع مہیا کریں اوحکومت کے اخراجات کو کنٹرول کر نے کا سوچیں، یہ وہ اہداف ہیں جن کاحصول ہم نے سال بھر میں کرنا ہے۔

صوبائی Non-Salary تخمینہ 65 بلین ہے اور ضلع کی سطح پر Non-Salary بجٹ کا تخمینہ 23 بلین ہے، جوکہ کل ملا کر 88 بلین بنتا ہے۔ پچھلے سال کے 73 بلین کے مقابلے میں یہ بجٹ 21فیصد زائد ہے۔ اگر اخراجات کو 10فیصد کم کیا جائے تو ترقیاتی کاموں کے لیے مزید 8 بلین روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ جس کے لیے ہم بھرپور کوشش کریں گے۔اس سال کے ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 180بلین روپے کا ہے۔

جبکہ یہ یاد رہے کہ ہم 30بلین اضافی بجٹ پیش کر رہے ہیں، پچھلے سال کا بجٹ 148بلین روپے تھا۔ اسطرح یہ پچھلے سال کے اصل اخراجات سے تقریباً 21فیصد زائد ہے۔انہوں نے کہاکہ ترقیاتی بجٹ اپنے وسائل کے 109بلین روپے پر مشتمل ہے۔ جس میں سے 80 بلین روپے صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف کیے جائیں گے جبکہ 29 بلین روپے ضلعی حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں پر صرف کریں گی۔

جبکہ غیر ملکی امداد کا تخمینہ 71 بلین روپے کا ہے۔سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں 1376 منصوبے شامل ہیں، جس میں 1155جاری اور 221نئے منصوبے شامل ہیں۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہاکہ ملکی حالات نارمل نہیں ہیں۔لہٰذا صوبے کا بجٹ معمول سے ہٹ کر ہے۔پچھلے پانچ سالوں کے بجٹ کا مقصد ملکی معیشت کو بہتر بنا نا تھا۔لیکن ہماری وفاقی حکومت کو بیل آئوٹ پیکیج کے لئیIMFکے پاس جانے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

اگرگذشتہ وفاقی حکومت نے بہتر فیصلے کئے ہوتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔اگر گذشتہ قیادت نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے اقدامات کئے ہوتے،غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جاتی،مناسب ترقیاتی کاموں میں پیسہ لگایا جاتا، اہم شعبوں اور اِداروں کے خسارے کو کم کیا جاتا، گورننس میں ریفارمز لائی جاتیں،تو حالات بہتر ہوتے۔انڈسٹری پھل پھول رہی ہوتی، برآمدات بڑھ چکی ہوتیں، سرمایہ کاری میں اضافہ ہو چکا ہوتا، فارن ایکسچینج ریزرو میں اتنی تیزی سے کمی نہ آتی اور ڈالر آج 135روپے کی بجائی100روپے کا ہوتا اور ہمیں اس معاشی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو آج ہمیں درپیش ہے۔

لیکن گذشتہ حکومت میں یہ مشکل فیصلے کرنے کی ہمت نہیں تھی۔لہٰذاPTIکو ایسی وفاقی حکومت ملی جو کہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہوگا کہ صوبے کا اِس سے کیا تعلق لیکن کیونکہ ہم اپنے بجٹ کے لئی 90%وفاق پر انحصار کرتے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کی پالیسیوں کاہمارے منصوبوں پرگہرا اثر پڑتا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ بجٹ صوبے کے لئے منفرد بجٹ ہے۔

یہ بجٹ مالی سال کے درمیان میں پیش کیا جا رہا ہے۔الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ہماری پچھلی صوبائی حکومت نے بہترین جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ آنیوالی نئی حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق بجٹ بنائے۔انہوں نے کہاکہ یہ وسط مدتی بجٹ چار عوامل کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔پچھلی حکومت کی پالیسی کا تسلسل، ایک نیا اور مزید بہتر ریفارمز ایجنڈا، حقیقت پسندی پر مبنی بجٹ اوراِس مشکل معاشی صورتحال کا اِحساس، جس سے اِس وقت ملک گزر رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کیسا احتساب90sکی دہائی میں اقتدار PPP،ANPاورPML(N)میں ہی بار بار منتقل ہوتا رہا۔2002میں جب صوبے کے عوام روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہوئے تو انہوں نیMMAکو بھاری مینڈیٹ دے دیا۔پھر جبMMAنے بھی Deliverنہیں کیا تو یہ مثالی مینڈیٹANPکو منتقل ہوگیا۔اور پھر جبANPبھی ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوئی تو2013میں صوبے کے عوام نے نئے پاکستان کے لئے عمران خان کو ووٹ دیا۔

انہوں نے کہاکہ عمران خان نہ صرف دوسروں سے منفرد ہیں ۔بلکہ کچھ منفرد کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہیں۔پھر2018میں جس صوبے نے کبھی کسی پارٹی کو مسلسل دوسری بار منتخب نہیں کیا، نے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو دوبارہ منتخب کیا بلکہ صوبائی اسمبلی میں تاریخی دو تہائی اکثریت بھی دی۔اور وہ صوبہ جس میں ہمیشہ مخلوط حکومتیں ہی بنتی رہیں،اس میں70سال میں پہلی دفعہ سنگل پارٹی برسرِ اقتدار آئی۔

عوام نے ہمارا ساتھ دیا۔انہوں نے کہاکہ تعلیم PTI کیلئے سب سے اہم شعبہ ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے بہتر سرمایہ کاری وہ ہے جو ہم اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کیلئے کرتے ہیں۔خیبر پختونخواہ تقریباً 167 ارب30کروڑ روپے تعلیم کے شعبہ میں خرچ کرے گا۔ جوکہ کل بجٹ کا 27 فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس میں 146 ارب 11 کروڑ روپے ابتدائی وثانوی تعلیم کے لیے، 18 ارب 80 کروڑ روپے اعلیٰ تعلیم کیلئے جبکہ 2 ارب 42 کروڑ روپے فنی تعلیم کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔

گذشتہ سال تعلیم پر ہمارا کل خرچہ 131 ارب روپے تھا۔ اس طرح ہم نے تعلیم کے بجٹ میں اس سال تقریباً 28فیصد اضافہ کیا ہے۔ہمارے تعلیمی بجٹ کا تناسب دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور فنی تعلیم میں اساتذہ کی کل تعداد تقریباً 2 لاکھ ہے۔ جس پر ہم سالانہ 100 ارب کے قریب خرچ کرتے ہیں۔ اگر چہ یہ ہمارے ترقیاتی بجٹ میں شمار نہیں ہوتا مگر پھر بھی یہ ہمارے بجٹ کا سب سے بڑا اور اہم ترقیاتی جُزہے۔

اس کے علاوہ ADP میں 21 ارب روپے تعلیمی منصوبوں پر خرچ کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ 9 ارب 60 کروڑ روپے سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے مختص ہیں۔دیگر اہم منصوبوں میں سیکنڈری سکولوں کی طالبات کیلئے وظائف اور تمام صوبے میں نئے سکولوں کی تعمیر اور اب گریڈیشن شامل ہیں۔اگلے چند دنوں میں ہم اپنا 2018-23 کا تعلیمی خاکہ جاری کریں گے۔ جس میں آپ دیکھیں گے کہ اگلے پانچ سالوں میں ہمارا بنیادی ہدف کوالٹی کو یقینی بنانا ہے کیونکہ ہماری اصل منزل سکول تعمیر کرنا نہیںبلکہ صوبے کے 30ہزار سکولوں میں سے ہر ایک کو صحیح معنوں میں علم کا ایک ایسا مرکز بنانا ہے جس پر لوگوں کا اعتماد ہو۔

وزیر خزانہ نے صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ صحت ہماری ترجیحی شعبہ ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ صحت پر تقریباً78 ارب 65کروڑروپے خرچ کرے گا۔جو کہ بجٹ کا تقریباً13%ہے۔گذشتہ سال ہم نے بجٹ کے لئی69 ارب روپے مختص کئے تھے جس میں سی65ارب روپے خرچ ہوئے۔اس طرح اس سال کا بجٹ گذشتہ سال کے اخراجات سی21فیصد زیادہ ہے۔صحت کے شعبے میں بھی ہمارے اعداد و شمار دوسرے صوبوں سے بہتر ہیں۔

ہم صحت پرصوبائی GDP کا 2 فیصد سے زائدخرچ کررہے ہیں جو کہ دوسرے صوبوں سے بہتر ہے تاہم یہ ابھی بھی ناکافی ہے۔ہمارا صحت کے شعبہ کا ترقیاتی بجٹ 11 ارب 90 کروڑ روپے ہے۔ جس کا محور صوبے کے غریب عوام ہیں۔ اہم منصوبوں میں صحت انصاف پروگرام میں توسیع، EPI, LHW, MNCH اور Nutrition کے پروگراموں کو مربوط بنانا، تمام صوبے میں DHQs اور THQs کی Standarization اور مختلف مراکز صحت کی تعمیر، بہتری اور Upgradation شامل ہیں۔

مزید یہ کہ ہم اپنے 100 Days Agenda کے تحت ایک ایسا منصوبہ متعارف کرائیں گے جس میں صوبے کے 800 سے زائد BHUs میں سے ہر ایک میں یکساں اور بہتر Service Delivery یقینی بنائی جائیگی۔ تاکہ جو سرمایہ کاری ہم نے ڈاکٹرز کی بھرتی اور مراکزصحت کو بہتر بنانے میں کی ہے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جاسکے۔انہوں نے کہاکہ امن و امان اور انصاف کیلئے جس میں پولیس ، محکمہ داخلہ، جیل خانہ جات اورعدلیہ شامل ہے ، پچھلے سال مختص شدہ رقم 54.5 ارب کے مقابلے میں اس سال ہم نے 62.5 ارب روپے مختص کئے ہیں۔

قانون کی بالادستی کیلئے ، محکمہ داخلہ ایک جامع منصوبہ تیار کرے گا۔نئے قانون کے نفاذ اورسول مقدمات کو نمٹانے میں محکمہ قانون ، عدلیہ کی ہر قسم کی مدد اور حمایت کرے گا۔ محکمہ پولیس میںتھانوں کی بنیاد پر بجٹ کی فراہمی کے علا وہ پورے پختونخوا میںجدید طرز پر نئے تھانے قائم کئے جائینگے۔ ٹریفک وارڈن پولیس سسٹم کو ایبٹ آباد ، سوات اور مردان تک توسیع دی جائیگی اور پولنگ میں شفافیت لانے کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔

ٹرانسپورٹ سیکٹر کیلئے کُل 39.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ جس میں سے 39 ارب روپے ترقیاتی کاموں اور BRT کی تکمیل پر خرچ ہونگے۔ جو کہ ایک مثالی منصوبہ ہے اور جس سے یقینا پشاور کے عوام کو سہولت ملے گی اور معیشت کو فروع حاصل ہوگااور شہر کی ترقی میں نئی بنیاد ثابت ہوگا۔ضلعی ADP اور پختونخوا لوکل گورنمنٹ سسٹم کیلئے مبلغ 29.3 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اس سال ہم لوکل گونمنٹ سسٹم کو بہتر کرینگے اور اس کوقبائلی اضلاع تک توسیع دینگے۔ اس کے علاوہ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ 4.8 ارب روپوں کے حجم تک ترقیاتی منصوبے مکمل کرے گا ۔ جس میں ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرز کی خوبصورتی، میونسپل سروسز اور پانی کی فراہمی شامل ہے۔زراعت ، ماہی گیری،آبپاشی اور توانائی کیلئے کُل 24.2 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

جس میں سے 12 ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونگے۔ جس میں سے بڑے منصوبے پیہورہائی لیول کینال صوابی کی توسیع پر 3 ارب روپے خرچ ہونگے اور 1.5 ارب گومل زام ڈیم کی ترقی پر خرچ ہونگے۔ ایک خطیر رقم نہروں کی بہتری اور پختگی میں بھی استعمال ہوگی۔سڑکوں، شاہراہوں ا ور پلوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے 17.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس سال ہم سوات ایکسپریس وے کو بھی دیکھیں گے۔

جس سے ملاکنڈ ڈویژن کی معیشت اور سیکیورٹی میں بہتری کے علاوہ خیبر پختونخواہ کی سیاحت اور معیشت میں بھی بہتر ی آئیگی۔پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے لئے کل9 ارب 20کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جس میں سی3ارب0 4کروڑ روپے ترقیاتی بجٹ ہے۔ترقیاتی منصوبوں کا بنیادی مقصد تمام صوبے میں صاف پانی کی فراہمی ہے تاکہ ہر شہری کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی یقینی بنائی جاسکے۔

انہوں نے کہاکہ محکمہ ماحولیات جنگلات کے لیے ریکارڈ رقم 6.5 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔محکمہ بلین ٹری سونامی سکیم کوتوسیع دینے کے تحریک انصاف کے عزم کے ساتھ ساتھ بہت سی سکیموں پر کام کرے گا جس میں صاف وسرسبز پاکستان اور UNDP کی امداد سے شمالی پاکستان میں Glacial lake outburst floor risk reduction جیسے اقدامات شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میںہر اول دستے کا کام سر انجام دے گا۔

Urban Development کے لیے 4.1 بلین روپے مختص کے گئے ۔ جس میں Northren Ring Road Peshawar،WSSاور WSSCs کو گرانٹ کی فراہمی اور مردان سوات اور دیر میں جاری تعمیراتی بس ٹرمینل شامل ہیں۔انرجی اینڈ پاور:۔اس شعبے کا ترقیاتی بجٹ چار گنا اضافے کے ساتھ 80 کروڑ سے بڑھا کر 4ارب 10 کروڑ کردیاگیا ہے۔ تقریباً 3 ارب 80کروڑ روپے دریائوں اور نہروں پر منی اور مائیکرو ہائیڈرو پاور منصوبوں 8000 سکولوں اور 187 BHUsکو شمسی توانائی پر منتقل کرنے پر خرچ ہوں گے۔

جبکہ باقی رقم صوبے میں تیل وگیس کے ذخائر کی تلاش وپیداوار کو فروغ دینے اور کرک میں پیٹرولیم انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی کے لیے زمین کی خریداری میں استعمال ہوگی۔محکمہ کھیل، ثقافت اور سیاحت کے لیے 3.5 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سیاحت صوبے کی معیشت کے لیے ایک اہم ستون ہے۔ اس سیکٹر میں آپ کو ہمارے منصوبہ جات کی تفصیل اگلے چند مہینوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔

نوجوان پاکستان کی ترقی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔KP Impact Challengeجیسی سکیم کی کامیابی اور توسیع،ان کے لیے صوبہ بھر میں کھیلوں کی سہولیات میں توسیع ترقیاتی ایجنڈے کا ایک لازم جز ہے۔ سوشل ویلفئیر خواتین کی ترقی اور خصوصی تعلیم اور بہبود آبادی زکوٰة اور عشر اوقاف اور مذہبی واقلیتی امور وحج کے لیے 13.9روپے کی رقم مختص ہے۔ ان سیکٹرز میں infrastructure کے منصوبوں کے علاوہ خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے ایک ترقیاتی سکیم کا اجراء کرنے کی تجویز ہے جو کہ ہمارے 100 days پلان کا حصہ ہے ۔

اس کے علاوہ معاشرے کے خصوصی افراد کو صحت انصاف کارڈ تک رسائی بھی اس میںشامل ہے۔دوسرے اہم محکمے جس میں انڈسٹری۔معدنیات۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن شامل ہیں مجموعی طور پر5.4ارب کی رقم مختص کی گئی ہے۔یہ تمام شعبے صوبے کی فلاح و بہبود کے لئے اہم ہیں۔صوبے کی انڈسٹری پالیسی کو ترجیحی بنیادوں پر عملی جامہ پہنانے کے لئے انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ، فنانس ڈیپارٹمنٹ اور صوبے کے پرائیویٹ سیکٹر میں قریبی روابط استوار ہیں۔

اسی طرح ہمیں اپنی معدنی ذخائر سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے بشمول ان علاقوں کے جو قبائلی اضلاع کا حصہ ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی ہمارے صوبے کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ITکو بہتر انداز میں استعمال کرنے میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور مختلف شعبوں میں اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ جن میںe-Govt. ، Citizen Feedback Forumsکا قیام، خدمات کی بہتر فراہمی کے مراکز اور صوبے کی I.T Economy کو بہتر بنانا شامل ہیں۔

اس کام کی تکمیل کے لئے کئی ا قدامات کی تجویز ہے۔تا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی اورI.T. Infrastucture کی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکے۔جس کی ایک مثالOpen wifiکا منصوبہ ہے۔ ہمارے پاس 100دنوں کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لئے 2ارب روپے کا فنڈ رکھنے کا منصوبہ ہے۔جس کی منظوری کا ایک خاص طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ خیبر پختونخواہ میں شامل قبائلی اضلاع کے بارے میں کہنا چاہوں گا۔

اس بجٹ میں قبائلی اضلاع شامل نہیں ہیں کیونکہ ان علاقوں کے لیے وفاقی حکومت پہلے ہی بجٹ بنا چکی تھی۔ انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ اگلا سال پہلا سال ہوگا جب یہ اسمبلی پورے خیبر پختونخواہ بشمول قبائلی اضلاع کا بجٹ منظور کرے گی۔اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ ہماری حکومت قبائلی اضلاع کو بہتر طور پر صوبے میں شامل کرنے کیلئے انتہائی سنجیدہ ہے۔

یہ merger جوکہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے بعد سیاسی طو ر پر دنیا کا سب سے اہم merger ہے پاکستان کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ تما م ایوان اس میں میری ہم آواز ہوگا۔ان اضلاع سے متعلق محکموں اور وسائل کی منتقلی کے بارے میں وفاقی حکومت کیساتھ تفصیلی مشاورت جار ی ہے۔ جیسے ہی مالی اختیارات کی منتقلی مکمل ہوتی ہے۔

یہ صوبہ اس قابل ہو جائیگا کہ وہ ان اضلاع کیلئے دفاتر، عدالتیں، پولیس سٹیشنز کی تعمیر کیساتھ ساتھ ایک long term معاشی ومعاشرتی ترقی کے منصوبے پر عمل شروع کردے۔اور یہ صرف ہمارے صوبے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کیلئے ایک چیلنج اور ذمہ داری کے حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ان قبائلی اضلاع کی تعمیر وترقی کیلئے NFC میں 3 فیصد مختص کرنے کا وعدہ پورا کریں جن کیساتھ گذشتہ 70 سال سے ناانصافی ہورہی ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات