منی لانڈرنگ کیس ،ْآصف زرداری اور فریال تالپور بینکنگ کورٹ میں پیش ،ْ

جج کی رخصت کے باعث سماعت ملتوی ملزمان کے خلاف بوگس اکاؤنٹ کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے ،ْ ملزمان کے وکلا کی جانب سے ملزمان کی عبوری ضمانت میں توسیع کی استدعا کی جائے گی

منگل 16 اکتوبر 2018 13:33

منی لانڈرنگ کیس ،ْآصف زرداری اور فریال تالپور بینکنگ کورٹ میں پیش ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2018ء) منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور مقدمے میں نامزد اومنی گروپ کے مالک انور مجید کے تینوں بیٹے بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔ملزمان کے خلاف بوگس اکاؤنٹ کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے ،ْ سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، انور مجید کے تینوں صاحبزادوں، ذوالقرنین، علی مجید اور نمر مجید نے عدالت سے ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔

منگل کو سماعت کیلئے تمام ملزمان پیش ہوئے تاہم فاضل جج کی رخصت کے باعث سماعت 13 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔منی لانڈرنگ کیس میں انور مجید، حسین لوائی، غنی مجید اور حسین لوتھا بھی نامزد ہیں۔یاد رہے کہ ایف آئی اے حکام نے بتایا تھا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا ،ْ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

(جاری ہے)

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کیلئے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے ،ْانکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے ،ْ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے ،ْ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے تاہم انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی ،ْناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ،ْان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔