سرکاری اور نجی سکولوں میں بہت گیپ پیدا کر دیا گیا ہے، فیسوں کے لیے ضابطہ کار ہونا چاہیے. چیف جسٹس

طبقاتی تقسیم سمجھنے کے لیے بھارتی فلم ہچکی دیکھیں، میں تو ٹوٹی کرسیوں والے سکول میں پڑھا ہوں.جسٹس ثاقب نثار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 16 اکتوبر 2018 16:08

سرکاری اور نجی سکولوں میں بہت گیپ پیدا کر دیا گیا ہے، فیسوں کے لیے ضابطہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 اکتوبر۔2018ء) چیف جسٹس پاکستان نے سکولوں کی فیسوں میں اضافے کیخلاف کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ سرکاری اور نجی سکولوں میں بہت گیپ پیدا کر دیا گیا ہے، سکولوں میں فیسوں کے لیے ضابطہ کار ہونا چاہیے،طبقاتی تقسیم سمجھنے کے لیے بھارتی فلم ہچکی دیکھیں، میں تو ٹوٹی کرسیوں والے سکول میں پڑھا ہوں.

نجی سکولوں کی فیسوں میں اضافے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی.

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے پرائیویٹ سکول مالکان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج شام یا کل صبح ہماری ایجوکیشن پالیسی آ جائے گی، آپ اپنی مرضی کی فیس چارج کر رہے ہیں، آپ کہتے ہیں آپ کا رائٹ ٹو ٹریڈ ہے،آپ تعلیم بیچ رہے ہیں.

آپ کہتے ہیں من مانی فیس لیں گے جسے منظور نہیں اپنے بچے کو لے جائے،عدالت کو اساتذہ کا بہت احترام ہے، اتنی فیس نہ لیں کہ بچے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں. چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نجی سکول من مرضی اور منشاءکے مطابق فیس لیتے ہیں جو 50 ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے،نجی سکول چاہتے ہیں تعلیم فروخت کرکے جتنے مرضی پیسے لیں،سکولوں کاموقف ہے انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو.

تعلیمی اصلاحات پالیسی میں فیسوں کا مسئلہ بھی حل کیا ہے،اساتذہ عدالت آئے تو جج کھڑے ہو جاتے ہیں. وکیل پرائیویٹ سکولز کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ عدالت کے سامنے یہ معاملہ ہے کہ فیس کتنی بڑھائی جائے. چیف جسٹس نے کہا کہ فیسوں کے بڑھانے کاضابطہ نہیں تو ہم خود فیسوں کا تعین کر دیتے ہیں. چیف جسٹس کے ریمارکس ہر کمرہ عدالت میں موجود والدین نے تالیاں بجا دیں،چیف جسٹس نے والدین کو تالیاں بجانے سے سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ یہ عدالت کی تعظیم کے خلاف ہے.

والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں کہا کہ سکول والے کہتے ہیں منافع کم بچتا ہے لیکن برانچیں بڑھ رہی ہیں. چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ہے تو سکولوں کا آڈٹ کرا لیتے ہیں کہ منافع میں ہیں یا خسارے میں، آپ تعلیم کے قومی جذبے سے ہٹ کر کمائی کے چکر میں پڑ گئے ہیں،آپ لوگوں نے سرکاری اور نجی سکولوں میں بہت گیپ پیدا کر دیا ہے. انہوں نے کہا کہ سکول مالکان نے چار چار رجسٹر بنائے ہوئے ہیں، بڑے بڑے وکیلوں کے ساتھ پیش ہوجاتے ہیں ،آپ لوگوں کو ملک کا فائدہ دیکھنا چاہیے، ایک بندہ ایک ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لیتا ہے.

جس کے3بچے ہیں،وہ کیسے 30 ،30 ہزار فیس دے گا، فیسوں کے لیے ضابطہ کار ہونا چاہیے. چیف جسٹس نے مزیدکہا کہ سکولوں کا آڈٹ کراتے ہیں اور مالکان کے ٹیکس ریٹرن بھی دیکھیں گے، میرے پاس روز رپورٹس آتی ہیں کہ بڑے سکولوں میں کتنی منشیات استعمال ہو رہی ہے،بڑے بڑے ممی ڈیڈی سکولوں میں بچوں کو منشیات دی جا رہی ہے،مہنگے سکولوں میں یہ ہو رہا ہے، میں نام نہیں لینا چاہتا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نپولین نے میلان فتح کیا توکہا تھاجسے معافی لینی ہو وہ کسی استاد کے گھر چلا جائے،اشفاق احمد جرمنی کی عدالت گئے تو عدالت انکے احترام میں کھڑی ہو گئی،میں چاہتا تھا سب کی ایک کتاب، ایک بستہ اور ایک یونیفارم ہو. عدالت کی سکولوں کے سینئر وکلاکو والدین بن کر سوچنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن کے ساتھ بیٹھ کر معقول فیس کا تعین کریں،قانون سازی کیلیے بھی تجاویز دیں،اس کے بعد کمیٹی بنادیں گے، تمام فریقین کے وکلا کی کمیٹی مل کر اس مسئلے کا حل نکالے‘عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی.