دنیا کے10بڑے ترقی یافتہ ممالک ہر سال لاکھوں ٹن خوراک ضائع کردیتے ہیں‘ورلڈ انڈکس

برطانیہ انڈکس میں سب سے آگے‘جرمنی دوسرے‘مریکا 6ویں نمبر پر فہرست میں آسٹریلیا‘کینڈا ‘ناروے‘ ڈنمارک ‘فن لینڈ‘ملائیشیاءاورسنگاپور شامل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 20 اکتوبر 2018 10:05

دنیا کے10بڑے ترقی یافتہ ممالک ہر سال لاکھوں ٹن خوراک ضائع کردیتے ہیں‘ورلڈ ..
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 20 اکتوبر۔2018ء) دنیا میں غذائی اجناس اور خوراک کا بڑے پیمانے پر ضائع ہونا کچھ ممالک کا سنگین مسئلہ ہے دوسری طرف اسی کرہ ارض پر کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جو اپنی غذائی ضرورت پوری ہی نہیں کرپاتے اور ان کے عوام قحط سے بھوکوں مرنے پر مجبور ہیں. دنیا میں کئی خطے ایسے ہیں جہاں پوری پوری نسلوں نے کبھی کسی پرتعیش غذا کی شکل بھی نہیں دیکھی.

انسان کے زندہ رہنے کے لیے جو اشیا سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں غذا سرفہرست ہے ، اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ممالک غذائی اشیا بے دریغ ضائع کرتے ہیں، اس غذائی کچرے کو تلف کرنے پر بھی کثیر رقم صرف ہوتی ہے.

(جاری ہے)

کرہ ارض کے 78 کروڑ افراد مسلسل بھوک اور افلاس کا شکار ہیں ، وہیں ہر سال لاکھوں ٹن خوراک کو انتہائی معمولی وجوہات کی بنا پر ضائع کردیا جاتا ہے جن سے پوری دنیا کے بھوکے لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے ہیں.یہ غذا نہ صرف گھروں میں بلکہ کھیتوں میں اور انڈسٹریل سطح پر بھی بے دریغ ضائع کی جارہی ہے اور اس کا سب سے بنیادی سبب اسٹوریج کے مناسب اقدامات نہ ہونا بتایا جاتا ہے.

دنیا میں غذا ضیاع کرنے والے تمام بڑے ممالک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں ماہرین کا ماننا ہے کا سٹوریج مسلہ نہیں ہے بلکہ غیرانسانی سوچ اور رویہ مسلہ ہے تاجرانہ ذہنیت والے ان ممالک کے نزدیک سٹوریج پر زیادہ اخراجات آتے ہیں جبکہ خوراک کو ضائع کرکے نئی غذائی اجناس کو درآمدکرنے یا مقامی منڈیوں سے منگوانے پر کم خرچ ہوتا. صرف امریکا اور کینڈا میں ہرسال ضائع ہونے والی خوراک سے نہ صرف پورے لاطینی امریکا بلکہ براعظم افریقہ کے افلاس زدگان کے پیٹ بھرے جاسکتے ہیں.ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیابھر میں غذا کی منصوعی قلت اور اس پر کنٹرول بین القوامی کارپوریشنزکا ایجنڈا ہے ‘انتہائی طاقتور اور بااثران کارپوریشنزکے خلاف دنیا بھر کا میڈیا خاموش رہتا ہے .یہ کارپوریشنزبھی ہرسال لاکھوں ٹن غذائی اجناس خرید کر انہیں تلف کردیتی ہیں تاکہ مارکیٹ میں ”توازن“برقراررہے اور ان کارپوریشنزکی چھتری کے نیچے کام کرنے والی کمپنیوں کے منافع کے ”اہداف“پورے ہوتے رہیں .

2018 انڈیکس کے مطابق سب سے زیادہ غذا ضائع کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں برطانیہ ان ممالک میں سے ہے جو اپنی غذائی ضرورت کا بڑا حصہ ملک میں اگاتے ہیں ، ان کی60 فیصد غذائی ضرورت ملک سے پوری ہوتی ہے جبکہ باقی 40 فیصد امپورٹ کیا جاتا ہے. یہ ملک6.7 ملین ٹن غذائی کچرا پیدا کرکے اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے. اس کچرے کو ٹھکانے لگانے میں 10.2 بلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں ، یاد رہے کہ اتنی رقم سے پاکستان جیسے ممالک اپنے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں.

برطانیہ کی حکومت کی کوشش کہ ہے کہ اس کچرے کو کم کر ایک لاکھ 37 ہزار ٹن تک لایا جاسکے اور مقصد کے لیے وہاں ‘غذا سے پیار، غذا کے ضیاع سے نفرت‘ کے عنوان سے مہم بھی چل رہی ہے.انسانی ہمدردی پر مشتمل رویوں کا حامل ملک جرمنی میں بھی اس فہرست میں دوسرے نمبرپر ہے یعنی یہاں بھی کھانا ضائع کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے. اندازہ ہے کہ ایک جرمن شہری ہر سال 82 کلو کرام غذا ضائع کردیتا ہے جو کہ مجموعی طور پر 11 ملین ٹن بنتا ہے‘ اس غذای کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے حکومت کو کثیر سرمایہ صرف کرنا پڑتا ہے‘جرمنی کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ 2030 تک اس مقدار کو کم کرکے آدھے پر لایا جائے.کھانا ضائع کرنے والے ممالک میں جنوب مشرقی ایشیائی ملک ملائیشیا تیسرے نمبر پر ہے ، یہ ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے، عموماً ایسے ممالک میں غذا ضائع کرنے کی شرح بے حد کم ہوتی ہے تاہم یہاں افسوس ناک حد تک زیادہ ہے.

ایک اندازے کے مطابق یہاں 560 کلو فی کس غذا ضائع کردی جاتی ہے‘ ضائع ہونے والی اشیا میں سرفہرست فروٹ اور سبزیاں ہیں.جزیروں پر مشتمل ملک سنگا پور کا غذائی ضرورت کا انحصار درآمد کرنے پر ہے اس کے باوجود کھانا ضائع کرنے والوں کی اس لسٹ میں یہ ملک چوتھے نمبر ہے. ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں آنے والی تمام تر غذائی اشیا کا کل 13 فیصد حصہ مکمل ضائع ہوجاتا ہے.

حکومت کی جانب سے کھانے کو مکمل ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم ان اقدامات سے فی الحال کل ضائع شدہ کھانے کا13 فیصد ہی ری سائیکل کیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک میں کھانا ضائع کرنے کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے.فن لینڈ انتہائی چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس فہرست میں پانچویں نمبر ہے، اندازہ ہے کہ یہاں 550 کلو گرام فوڈ فی کس ضائع ہوجاتا ہے.

غذاضائع کرنے میں ریستوران، ہوٹل اور کیفے سب سے آگے ہیں ، گھریلو کچن اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہیں.امریکا غذا پیدا کرنے اور امپورٹ کرنے ، دونوں میں بہت آگے ہے ، یہاں کے افراد کھانے پینے کے بے حد شوقین ہیں. غذا ضائع کرنے میں امریکا چھٹے نمبر پر ہے‘فارم سے لے کر کیٹرنگ پوائنٹ تک پہنچنے میں ہی یہاں غذا کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے.

اندازہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی آدھی غذا ضائع ہوتی ہے‘ یعنی یہاں فی کس 760 کلو غذائی اشیا ضائع کی جارہی ہیں جن کی قیمت 1600 ڈالر بنتی ہے. یہ غذائی کچرا نقصان دہ گیسز پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے جس سے گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے.آسٹریلیا کا انڈکس میں ساتواں نمبر ہے. زیادہ آبادی والے شہروں میں غذائی اشیا ضائع کرنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ یہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد بتائی جاتی ہے جو کہ بچا ہوا کھانا سنبھالنے کے بجائے پھینک دینے کی عادی ہے.

غذا ضائع ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کے تاجر اکثر غذائی اشیا کو مارکیٹ میں آنے سے قبل ہی مسترد کردیتے ہیں جس کے سبب اسے ضائع کرنا پڑتا ہے. آسٹریلوی حکومت کو کم از کم8 ملین ڈالر اس غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے میں صرف کرنا پڑتے ہیں.ڈنمارک خوراک ضائع کرنے والے ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے ، اس ملک میں پیک شدہ اور غیر پیک شدہ دونوں طرح کی غذائی اشیا طویل عرصے سے استعمال کی جارہی ہیں.

یہ ملک اپنی ضرورت کا محض دو فیصد خود اگاتا ہے اور باقی تمام کا تمام باہر سے امپورٹ کرتا ہے. اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی کس 660 کلو کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو کہ مجموعی طور 7 لاکھ ٹن کھانا ضائع کرتا ہے. ا س بڑی مقدار کوٹھکانے لگانا یہاں کی حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے.یاد رہے کہ ڈنمار ک آبادی کینیڈا سے انتہائی کم ہے.کینیڈا اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے‘ محتاط اندازے کے مطابق یہاں فی کس 640 کلو گرام فوڈ ضائع ہوجاتا ہے جو کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 75 لاکھ ٹن بنتا ہے‘یہ ضائع شدہ کھانا نہ صرف ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ ماحولیات کے لیے بھی خطرہ بناتا ہے.

یہاں بھی گھریلو کچن اس معاملے میں سب سے آگے ہیں.ٹورنٹو غذائی اشیا کو ضائع کرنے والے اور اس پیدا ہونے والی آلودگی سے متاثر ہونے والے اہم شہروں میں شامل ہے.غذا ضائع کرنے والے ممالک میں ناروے دسویں نمبر پر ہے، حیرت انگیز طور پر ا س ملک کا صرف تین فیصد رقبہ زیر کاشت ہے جو کہ یہاں کے عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے قطعی ناکافی ہے. ملک کی تمام تر غذائی ضرورت باہر سے امپورٹ کرکے پوری کی جاتی ہے اس کے باوجود یہاں سالانہ 620 کلو غذائی اشیا فی کس ضائع ہوجاتی ہیں. مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ناروے سالانہ تین لاکھ 35 ہزار ٹن فوڈ ہر سال ضائع کردیتا ہے‘ اعداد و شمار کے مطابق یہاں سب سے زیادہ گھروں میں اور کھانے پینے کی جگہوں پر ضائع کیا جاتا ہے.