آئندہ 20برسوں میں ذیابیطس پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک بن جائے گا ،

ذیابیطس میں مبتلا خواتین کسی مستند ڈاکٹر سے ہی ڈلیوری کروائیں ، بازاری کھانوں سے پرہیز کریں، نرسنگ کے نصاب میں ذیابیطس کا مضمون شامل کر کے اسے نیشنل ہیلتھ پالیسی کا حصہ بنایا جائے،پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں نرسزکیلئے ذیابیطس کے علاج پر ہینڈ آن تربیتی ورکشاپ میں طبی ماہرین کا اظہار خیال

ہفتہ 20 اکتوبر 2018 18:40

آئندہ 20برسوں میں ذیابیطس پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان ذیابیطس کے ..
لاہور۔20 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اکتوبر2018ء) پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج و لاہور جنرل ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر محمد طیب نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ نرسنگ کے نصاب میں ذیابیطس کا مضمون شامل کرنے کے علاوہ اسے نیشنل ہیلتھ پالیسی کا حصہ بنایا جائے تاکہ اس بیماری سے متعلق تحقیق اور علاج نرسوں اور ڈاکٹروں کیلئے زیادہ سے زیادہ آگاہی کا باعث بن سکے اور خصوصاً نرسیں ان مریضوں کی بہتر نگہداشت کر سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نرسز کیلئے سپیشلائزیشن کورس کاا جراء بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ نرسنگ سٹاف ابتدائی تعلیم سے لے کر عملی میدان میں قدم رکھنے تک اس مرض کے بارے بخوبی آگاہ ہو سکے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں نرسوں کو ذیابیطس کے علاج کے حوالے سے منعقد ہ ہینڈز آن تربیتی ورکشاپ میں کیا جس کا اہتمام لاہور جنرل ہسپتال کے شوگر سینٹر کے انچارج ڈاکٹر عمران حسن خان اور اُن کی ٹیم نے کیا ۔

ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب کوثر پروین، فاطمہ نسرین سابق پرنسپل بلوچستان ،سی این ایس سروسز ہسپتال ثمینہ یاسمین سمیت صوبائی دار الحکومت کے مختلف ہسپتالوں کی نرسنگ سپرنٹنڈنس اور نرسیں اس ورکشاپ میں شریک تھیں جنہیں ڈاکٹر عمران حسن خان ، ڈاکٹر ملیحہ حمید ، ڈاکٹر کاشف عزیز ،ڈاکٹر سلمان شکیل ، ڈاکٹر رضوان اور ڈاکٹر رانا آصف صغیر نے اس مرض کے بارے اور انسولین لگانے اور محفوظ کرنے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

پروفیسر محمد طیب نے کہا کہ شوگر کوئی بیماری نہیں ،ہمیں اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا اور ادویات کے استعمال کے علاوہ ورزش کو بھی معمول بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں مردوں کے علاوہ خواتین میں بھی شوگر کا مرض قابل ذکر تعداد میں موجود ہے دور دراز کے علاقوں میں خواتین کی خاصی تعداد موجود ہے جنہوں نے آج تک مناسب چیک اپ ہی نہیں کروایا ۔

پروفیسر محمد طیب نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کی شوگر میں مبتلا مریضوں کی 40فیصد تعداد جوانی میں اس مرض کا شکار ہوتی ہیں جبکہ دوران حمل ذیابیطس کے حوالے سے خواتین میں آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ 2زندگیوں کو بچانے کیلئے مستند ڈاکٹرسے ڈلیوری کروائیں ،اسی طرح شوگر کے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے اور کھانے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے جبکہ شوگر کے مریض کو آم ، انگور اور جاپانی پھل سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اور نصف گھنٹہ سے زیادہ دیر ترمسلسل نہیں بیٹھنا چاہیے۔

ورکشاپ میں ڈاکٹر عمران حسن خان و دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں سالانہ 80ہزار سے زائد شہریوں کا اس بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر جانا قابل تشویش ہے ،آئندہ 20برسوں میں ذیابیطس پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک بن جائے گا ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا باعث بننے والی 10بڑی بیماریوں میں ذیابیطس چھٹے نمبر پر ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے پھیلاؤ میں موٹاپا،تمباکو نوشی ،ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی جیسے اسباب شامل ہیں ،ذیابیطس بالعموم فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوںکو بھی متاثر کرتی ہے ۔شوگر کے مریضوں کو ہاتھ پاؤں صاف اور محفوظ رکھنے کے علاوہ مناسب ورزش بھی کرنی چاہیے ،اسی طرح زیادہ چکنائی اور بازاری کھانوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔