سپریم کورٹ کے زیر اہتمام دو روزہ انٹرنیشنل سمپوزیم نے پاکستان کودرپیش پانی کی قلت کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے 20 نکاتی اعلامیہ جاری کردیا

اتوار 21 اکتوبر 2018 01:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ کے زیر اہتمام دو روزہ انٹرنیشنل سمپوزیم نے پاکستان کودرپیش پانی کی قلت کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے 20 نکاتی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ انڈس باسین سے متعلق پاکستان کے کردار کو فوری طورپر تسلیم کیا جائے،انڈس باسین کی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے وفاق ، صوبوں اور دیگر انتظامی یونٹس کے ساتھ پاکستانی عوام کو بھی ایک سنجیدہ اور اہم ترین ذمہ داری کے طور پر اس معاملے کودیکھنا ہوگا، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ ناگزیر ہے کہ سرمایہ کاری کرکے ڈیم تعمیر اور زیر زمین پانی کے مناسب استعمال کو یقینی بنایا جائے اس کے ساتھ پانی صاف کرنے کے حوالے سے مناسب ٹیکنالوجی کو بروئے کارلاکر ری سائیکلنگ کے ذریعے صاف پانی کی دستیابی پر توجہ دی جائے جبکہ پانی کی طلب اوررسد کو باہمی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی متوازن رکھا جائے، اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف عالمی فورم پر جانے سے قبل عالمی قوانین کو فوقیت دی جائے ، پاکستان کی حکمت عملی کومد نظررکھتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی کی جائے اور اس معاملے کو دوبارہ زیر غور لایا جائے، حکومت پاکستان کو جدید ترین ڈیٹا کلیکشن کے طریقہ کار پرعمل کرتے ہوئے پانی کی مقدار کا باضابطہ تعین کیا جائے، اس کے ساتھ صوبوں میں مفاہمتی عمل کو فروغ دینے کیلئے فی کس پانی کی دستابی کو مناسب سطح پر یقینی بنایاجائے، اس ضمن میں خصوصاً انڈس ڈیلٹا والے علاقوں کو بھی مناسب حصہ فراہم کیا جائے، پاکستان کی زرعی اراضی کو محفوظ بنانے کیلئے موثر طریقہ کار اور ٹیکنیکس کے استعمال کو یقینی بنانے کے ساتھ پانی کے ذخائر بڑھانے پر توجہ دی جائے، پاکستان کے مختلف حصوں میں ترجیحی بنیادوں پر اور تیزی کے ساتھ لاتعداد چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں ، انڈس باسین کے آبپاشی کے نیٹ ورک کو مزید توسیع دی جائے جس سے کئی ملین ایکڑ اراضی زیر کاشت آ جائے گی اس کے ساتھ پاکستان کے زیریں علاقوں تک پانی کی رسائی کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں۔

(جاری ہے)

ڈیموں کی تعمیر کیلئے رقم کے حصول یقینی بنانے کیلئے روایتی اور غیر روایتی مختلف طریقے اپنائے جائیں، جن میں براہ راست سرمایہ کاری، کارپوریٹ فنانسنگ، ایک دوسرے کے ساتھ معاونت کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے ، بانڈز کا اجراء ٹیرف بڑھانے، اجتماعات کے ذریعے فنڈنگ جمع کرنے، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے انتظامات وغیرہ شامل ہیں۔ زمینی سطح پر پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے جائیں، جس سے پانی کے ذخائر اور انتظامی صورتحال میں بہتری آئے گی اور زمین کی غیر ضروری کٹائو میں کمی آئے گی۔

سیلاب کے خطرات کو کم کرنے کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ ، زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے، وٹ لینڈ کی بحالی کیلئے کمیونٹی کی سطح پر انتظامات کئے جائیں۔ اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ کو کنٹرول کرنے، پیداواری صلاحیت کو بڑھاوا دینے اور کم وسائل کو پائیداریت کی سطح پر پہنچانے کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس ضمن میں ایک قانونی فریم ورک تیار کیا جائے تاکہ ماحولیات کے تحفظ کیلئے ادارہ جاتی انتظامات کو مضبوط کیا جاسکے۔

یہ امر ممکن نہیں کہ پانی کے استعمال کو چیک کرنے کے حوالے سے کوئی مراعات دیے بغیر پانی کے قیمتی وسائل تک لوگوں کورسائی دی جائے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ انڈس باسین جو دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کا نظام ہے کو اس وقت پانی کی قلت کا سامنہ کرنے کے ساتھ موسمی تبدیلی ، آبادی میں اضافہ، متروک زرعی طریقوں کابدستوراستعمال اور مالیاتی معاونت نہ ہونے جیسے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جس کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے زیادہ بارشی علاقوں، صحرائوں ، پہاڑی علاقوں اور ساحلوں کو بھی پانی کی فراہمی اور استعمال کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں اور اس ضمن میں حالیہ طور پر تیار کی گئی نیشنل واٹر پالیسی ایک منفرد اقدام ہے جس پر انتظامیہ کو عملدرآمد کرنا چاہئے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ مناسب مینڈیٹ کے ساتھ ایک موضوع انڈس باسین اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ انڈس باسین کی ساکھ اور اس کے ثمرات کو یقینی بنایا جاسکے۔

اتھارٹی کو درکار اختیارات کے ساتھ اپنے میکنزم پر عملدرآمد کیلئے مالی وسائل بھی فراہم کئے جائیں۔ واٹر پالیسی کی حد تک انتظامی سطح پر ایک موثر نظام اور مینجمنٹ وقت کی شدید ضرورت ہے اور اس ضمن میں ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ذخائر بنانے کے ذریعے انفراسٹرکچر کے ساتھ ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق مختلف اداروں میں پانی کے حوالے سے مسائل نظر انداز کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے درپیش مسائل کا حل مشکل ہوتا جارہا ہے اس کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اداروں کو بااختیار بنا کر ان کو مینڈیٹ دیا جائے تاکہ وہ موثر تبدیلی کا باعث بن سکے۔

پانی کے حوالے سے موثر ادارہ واپڈا کے ادارہ جاتی ساکھ اور استعداد کو بڑھایا جائے تاکہ ڈیموں اور ذخائر کو فوری طور پر تعمیر کیا جاسکے۔ اکیسویں صدی میں پانی کے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہمارے تعلیمی ادارہ جاتی نظام کے ذریعے مستقبل کیلئے افرادی قوت تیار کی جائے۔ فوری طور پر پانی کے حوالے سے ایک طاقتور ٹاسک فورس بنائی جائے اس کے ساتھ ایگریکلچر ٹیکس نافذ کرکے بلاامتیاز سب سے وصول کیا جائے۔