کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ کا ایک اور اسکینڈل منظر عام،

2011-12 کے دوران 15 انٹرنیشنل میچز میں فکسنگ کے 26 واقعات کا انکشاف بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا، پاکستان، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ اور کینیا کی ٹیمیں فکسنگ میں ملوث ہیں، عرب میڈیا کی رپورٹ غیر ایڈٹ شدہ فوٹیج فراہم کی جائے ، آئی سی سی نے الجزیرہ چینل سے تازہ ترین فکسنگ الزامات کے شواہد مانگ لیے پلیئرز کے حوالے سے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں، اس لیے وہ ان الزامات کو رد کرتے ہیں، انگلینڈ و آسٹریلین کرکٹ بورڈ

پیر 22 اکتوبر 2018 21:10

کرکٹ میں سپاٹ فکسنگ کا ایک اور اسکینڈل منظر عام،
لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اکتوبر2018ء) کرکٹ میں اسپاٹ فکسنگ کا ایک اور اسکینڈل منظرعام پر آگیا، 2011-12 کے دوران 15 انٹرنیشنل میچز میں فکسنگ کے 26 واقعات کا انکشاف ہوا ہے، بھارت، انگلینڈ، پاکستان، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ اور کینیا کی ٹیمیں فکسنگ میں ملوث ہیں۔ اتوار کو الجزیرہ ٹی وی نے کرکٹ میچ فکسرز ٹائٹل کے نام سے اپنی دستاویزی فلم جاری کی جس میں اس نے ثبوتوں کے ساتھ اس بات کا دعوی کیا ہے کہ 2011-12 کے دوران 15 انٹرنیشنل میچز میں فکسنگ کے 26 واقعات ہوئے ہیں، عرب میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ تین میچز میں پاکستان، 7 میچز میں انگلینڈ، 5 میچز میں آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک کے کھلاڑی بھی اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تھے۔

اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے عرب میڈیا کی دستاویزی فلم کے مطابق جو میچ فکس کئے گئے ان میں 6 ٹیسٹ، 6 ون ڈے اور 3 ٹی ٹوئنٹی میچز شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اسپاٹ فکسنگ کرنے والوں میں زیادہ تر بلے باز تھے جنہوں نے بیٹنگ کے دوران پوری طرح پرفارم نہیں کیا۔ عرب میڈیا کے مطابق کرکٹرز کو اسپاٹ فکسنگ کیلئے تیار کرنے والا بھارت کا مشہور فکسر انیل منور تھا جس کے رابطے پاکستان ، بھارت، انگلینڈ اورآسٹریلیا کے کرکٹرز سے تھے۔

دوسری جانب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے الجزیرہ چینل سے تازہ ترین فکسنگ الزامات کے شواہد مانگ لیے۔آئی سی سی کی جانب سے ایک بار پھر قطری چینل سے کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے غیر ایڈٹ شدہ فوٹیج فراہم کرے۔ جبکہانگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اور کرکٹ آسٹریلیا نے واضح کیا ہے کہ ان کے پلیئرز کے حوالے سے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں، اس لیے وہ ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔

رپورٹ میں اس بار بڑی ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے میچز میں فکسنگ کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں 2011 میں انگلینڈ اور بھارت کے درمیان لارڈز ٹیسٹ، 2011 میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کیپ ٹائون ٹیسٹ، 2011 میں بھارت میں منعقدہ ورلڈ کپ کے 5 اور 2012 میں منعقدہ ورلڈ ٹی ٹونٹی کپ کے 3 میچز بھی شامل ہیں۔ 2011 میں منعقدہ ورلڈ کپ کے دوران انگلینڈ اور ہالینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ اور کینیا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے گئے میچز میں بھی فکسنگ کی گئی۔

رپورٹ کے تحت 2012 میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی ممکنہ طور پر کامیاب سپاٹ فکسنگ کی گئی۔ دستاویزی فلم میں ایک فون کال کا بھی انکشاف کیا گیا جس میں بھارتی فکسر انیل انگلش کھلاڑی کو کہہ رہا ہے کہ ایشز سیریز کی جیت مبارک ہو، آپ کی گزشتہ رقم تیار ہے اور ایک ہفتے کے اندر آپ کے حوالے کر دی جائے گی، کھلاڑی نے جواب میں کہا کہ بہت اچھا۔

پاکستانی کرکٹرعمراکمل، بھارتی کپتان ویرات کوہلی بھی نظر آرہے ہیں، اس کے علاوہ روہت شرما، بالاجی، سریش رائنا اور آسٹریلوی کرکٹراینڈی بکل بھی تصاویرمیں نظرآرہے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ میں دستاویزی ثبوت بھارتی بکی انیل منور کے حوالے سے شامل کئے گئے ہیں۔ انیل منور کی بھارتی کپتان ویرات کوہلی، روہت شرما اور عمر اکمل کے ساتھ تصاویر بھی رپورٹ میں شامل ہیں تاہم رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بکی کے ساتھ موجود کھلاڑیوں کا کسی غلط کام میں ملوث ہونا ضروری نہیں۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اینٹی کرپشن یونٹ کے جنرل منیجر الیکس مارشل نے اپنے بیان میں کہا کہ گورننگ باڈی الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے منظر عام پر لائے جانے والے اسپاٹ فکسنگ کے الزامات کو سنجیدگی سے دیکھ رہیں، آئی سی سی کرکٹ کی ساکھ کو پاک صاف رکھنے کیلئے مسلسل کوشاں ہے، پروگرام میں لگائے جانے والے الزامات کو نہ صرف سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے بلکہ اس کی مکمل اور جامع تحقیقات بھی کی جائیں گی۔

انہوں کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ آئی سی سی کرکٹ میں کرپشن کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتا، کھیل کو کرپشن سے پاک رکھنے کیلئے آئی سی سی پہلے سے کہیں زیادہ وسائل بروئے کار لارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے اور مختلف زاویوں سے اس پر کام کیا جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم براڈکاسٹرز کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ کی تفصیلات انٹرپول کو فراہم کرنے کے عزم کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بھی اس معاملے میں آئی سی سی کی معاونت کریں گی تاکہ کھیل سے ان مجرموں کو دور رکھا جاسکے۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو اس حوالے سے مزید کوئی معلومات ہوں تو وہ آئی سی سی سے رابطہ کرسکتا ہے۔