وزیراعظم نے بغیر کسی تحقیق کے اکثر سیاستدانوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی بات نہیں کی ہوگی ، سینیٹر سراج الحق

حکومت کا کام نصیحتیں کرنا نہیں ، حالات کی خرابی دور اورخرابی کے ذمہ داروںکو بے نقاب کرناہے وزیراعظم قوم کو مجرم سیاستدانوں کے نام بتائیں ، ان کے جرائم کی لسٹ جاری کریں اور انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں ، سیاستدانوں ، جرنیلوں ، ججز اور بیوروکریسی ، جس نے بھی ملک کو لوٹا ہے ، ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ، ۔نیب نے قوم کو مایوس کیا ،اس پر اٹھنے والے اخراجات ریکوری سے کہیں زیادہ ہیں،امیر جماعت اسلامی

پیر 22 اکتوبر 2018 22:12

وزیراعظم نے بغیر کسی تحقیق کے اکثر سیاستدانوں کے جرائم میں ملوث ہونے ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اکتوبر2018ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ وزیراعظم نے بغیر کسی تحقیق کے اکثر سیاستدانوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی بات نہیں کی ہوگی ۔ حکومت کا کام نصیحتیں کرنا نہیں ، حالات کی خرابی دور اورخرابی کے ذمہ داروںکو بے نقاب کرناہے۔ وزیراعظم قوم کو مجرم سیاستدانوں کے نام بتائیں ، ان کے جرائم کی لسٹ جاری کریں اور انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں ۔

قوم کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا بے لاگ احتساب چاہتی ہے ۔ سیاستدانوں ، جرنیلوں ، ججز اور بیوروکریسی ، جس نے بھی ملک کو لوٹا ہے ، ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ۔ نیب کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ سیاسی نظام کا حصہ بن چکا ہے ۔نیب نے قوم کو مایوس کیا ہے ،اس پر اٹھنے والے اخراجات ریکوری سے کہیں زیادہ ہیں،نواز شریف کی نااہلی کے بعد پانامہ کے دیگر 436ملزموں کو ڈھیل کیوں دی گئی اس کا جواب کسی کے پاس نہیں،نیب کے پاس 150سے زیادہ کرپشن کے میگا سکینڈل ہیں مگر ان پر کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ۔

(جاری ہے)

حکومت مالیاتی ایمر جنسی نافذ کر کے بیرون ملک پڑے 375 ارب ڈالر واپس لائے اور آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی بجائے سابقہ قرضے واپس کرکے باقی رقم سے ڈیم بنائے اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرے ۔ بلوچستان میں غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور تعلیم و صحت کے مسائل پورے ملک سے زیادہ ہیں ۔ امن و امان کے قیام پر سالانہ بیس ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ،خوف اور دہشت کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں کی دیواریں اونچی کر کے کانٹے دار تاریں لگوا رہے ہیں ۔

بلوچستان کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچستان کے عوام کا ہے ۔ بلوچستان کو حقوق سے محروم رکھ کر لوگوں سے محبت کی امید نہیں لگائی جاسکتی ۔ ان خیالات کااظہار انہوںنے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی اظہر اقبال حسن ، امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی اور صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن بھی موجود تھے ۔

سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ حکومت میں شامل بعض وزراء سابقہ حکومتوں کا تسلسل ہیں ، وزراء کے بیانات میں ہم آہنگی نہیں ۔ حکومت صبح کچھ اور شام کو کچھ اور کہتی ہے ۔حکومتی بیانات نے تلخی اور تنائو میں اضافہ کیاہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ آخری بارآئی ایم ایف کے پاس جارہی ہے ، حالانکہ حکومت کے لیے معاشی بحران سے نکلنے کاآسان طریقہ یہ تھاکہ سودی نظام ختم کر کے زکوة و عشر اور اسلام کا معاشی نظام نافذ کرتی اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے بیرونی بنکوں میں پڑا پیسہ واپس لاتی ۔

اگرحکومت آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لیتی ہے تو یہ اس کی اپنی پالیسیوں کی نفی ہوگی ۔عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگا کراور روز مرہ استعما ل کی چیزوں کی قیمتیں بڑھاکر معیشت درست نہیں ہوسکتی ہے ، آنے والی نسلوں پر قرضوں کا کوہ ہمالیہ لاد کر اور قوم کو عالمی معاشی اداروں کی ہتھکڑیاں پہنا کر حکومت کونسا معاشی انقلاب لانا چاہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کسی ملک کو ترقی دیتے ہیں اور نہ سودی قرضوں سے خوشحالی آتی ہے ۔

سینیٹر سراج الحق نے بلوچستان کی ابتر صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ جس کی ترقی پر سالانہ پانچ ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں ابھی تک ایک بڑے گائوں کا نقشہ پیش کر رہاہے، صوبے کے بڑے شہر بھی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سے محروم ہیں ۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات ہیں اور نہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ ۔ بلوچستان پاکستان کے 45 فیصد رقبے پر مشتمل معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے مگر یہاں کے صرف 23 فیصد لوگوں کو پانی ، بارہ فیصد کو بجلی اور بیس فیصد کو تعلیم کی سہولیات حاصل ہیں ۔

جو صوبہ پورے ملک کو گیس دیتاہے اس کے اپنے 89 فیصد لوگ اس نعمت سے محروم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ گھوسٹ سکول بلوچستان میں ہیں اور ہزار ہااساتذہ گھروں میں بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ انسان چاند کے بعد مریخ کی طرف جارہا ہے جبکہ بلوچستان میں67 فیصد لوگ ابھی تک ناخواندہ اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس زبوں حالی کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو بار بار حکومت میں آتے اور قومی دولت لوٹتے رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کرپشن بلوچستان میں ہے جس کے ایک سیکرٹری کے گھر کے پانی کے ٹینک سے کروڑو ں روپے برآمد ہوتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک منصوبے پر پوری قوم کا اتفاق و اتحاد ہے مگر حکومت منصوبے کی تفصیلات کو سات پردوں میں چھپا نے کی بجائے عوام کے سامنے رکھے ، ترقی کے اس عظیم منصوبے پر گرد و غبار کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔

انہوںنے مطالبہ کیاکہ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے تحفظات دورکئے جائیں، خاص طور پر گوادر کے ماہی گیروں ، جو شہر کے اصل باشندے ہیں ، ان کے خدشات کو دور کیا جائے اور گوادر کی تعمیر و ترقی میں ان کو شامل کیا جائے ۔ سراج الحق نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے خاتمہ اور اس میں ترمیم کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے صوبوں کو کچھ حقوق ملے تھے جس کی وجہ سے عوام کا وفاق پر اعتماد بڑھا تھا ،اس ترمیم کو ختم کرنا یا اس میں کسی قسم کی ترمیم کرنا کسی صورت بھی پاکستان کے حق میں نہیں ۔