سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکائونٹس کیس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی

پیر 22 اکتوبر 2018 23:53

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکائونٹس سے متعلق کیس میں سندھ حکومت کوجے آئی ٹی کو درکار تمام ریکارڈ حوالے کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔ پیرکو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پرمشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے عدالت کو پیشرفت رپورٹ پیش کی گئی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحقیقات کے دوران بہت بڑا فراڈ سامنے آیا ہے، جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے 47 ارب رو پے کی ٹرانزیکشن سامنے آ ئی ہے، اس فرا ڈ میں چھ سو کمپنیوں کے علاوہ کچھ لوگ ذاتی طورپر بھی ملوث ہیں، اس طرح بعض کیسز میں اکائونٹس محدود مدت میں کھولنے کے بعد بند کر دیئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کے روبرو انکشاف کیا کہ جعلی اکائونٹس کے معاملہ کا حجم ایک کھرب روپے سے زائد تک چلا گیا ہے ، اس معاملے میں کل 47 ارب روپے عام افراد جبکہ 54 ارب سے زائد رقوم کمپنیوں کے اکاونٹس میں ڈالی گئی ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس معاملہ کی تہہ تک پہنچ کر بینیفشریز تک پہنچ جائیں گے تو جے آئی ٹی کے سربراہ نے کہا کہ ہم بطور ٹیم مسلسل کوششں کررہے ہیں اورتوقع ہے کہ اس معا ملے میں مفاد اٹھانے والو ں تک پہنچ جائیں گے۔

جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو جعلی اکاونٹس کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا کہ فالودہ بیچنے والے، رکشہ چلانے والوں کے جعلی اکانٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں، مردہ افراد کے اکائونٹس سے بھی پیسے نکلے جن کے مر نے کے بعد پیسے دوسرے اکائونٹس میں منتقل کیے گئے، اس کے علاوہ صرف اومنی گروپ کے ذریعے 36 کمپنیاںسامنے آئی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں کو تعاون کے لئے تحریری درخواست دی گئی تھی تو جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ تعاون کے لئے تحریری درخواست دی گئی ہے تاہم اس معاملے میں سندھ حکومت ان کے ساتھ تعاون نہیں کررہی، خصوصًا سندھ کے چیف سیکرٹری، سیکرٹری آبپاشی اور سیکرٹری زراعت شامل ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے توشام تک سب کوبلالیتے ہیں۔

سندھ حکومت کے وکیل نے بتایا کہ صوبائی حکومت اس معاملے میں پورا تعاون کررہی ہے، جے آئی ٹی نے 2008 ء سے 2018ء تک 46 افراد کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات طلب کی ہیں جوان کو فراہم کردی جائے گی۔ چیف جسٹس نے آئندہ سماعت پر سندھ کے سیکرٹری خزانہ ، سیکرٹری توانائی ، سیکرٹری اریگیشن اور سیکرٹری اسپیشل انیشیوٹیوز کو ذاتی حیثیت میں کراچی رجسٹری میں پیش ہونے کی ہدایت کی اورکہاکہ عدالت تمام ریکارڈ کا خود جائزہ لے کر جے آئی ٹی کے حوالے کرے گی،اگر جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا جاتا تو عدالت اس بات پر غور کرے گی کہ ان افسران کے خلاف کس طرح کی کارروائی کی جائے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ بڑی بڑی رقومات اب بھی اکائونٹس میں موجود ہیں تو جے آئی ٹی کے سربراہ نے بتایا کہ پہلے اکائونٹس کھلوائے جا تے ہیں اور پھر رقوم نکلوا کر اکائونٹس بند کر دئیے جاتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کار سرکار میں مداخلت ہو نے پرمتعلقہ افسران کیخلاف کارروائی ہو گی، ہمارے علم میں آیاہے کہ ملز م پھر ہسپتال منتقل ہو گئے ہیں جس پر انور مجید کے وکیل نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ میرے موکل کو دل کا عارضہ لاحق ہے جیل ڈاکٹر نے انہیں ہسپتال بھیجنے کی سفارش کردی ہے،جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ مجھے سندھ کے کسی بھی ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتماد نہیں، ہم انور مجید کو کو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کرادیتے ہیں، انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیتے ہیں پھر ان کو 24 گھنٹے ڈاکٹرز کی سہولت میسر ہو گی، اگر زیادہ مسئلہ ہوا تو آر آئی سی یا پمز بھی ان کولایا جا سکتا ہے۔

عدالت کو نیشنل بینک کے وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ اومنی گروپ کی 3 شوگر ملز اور ایک رائس مل بند ہے جبکہ گروپ نے 23 ارب روپے بینک کو اداکرنے ہیں، ان کی ملز کو کام کر نے سے متعلق بھی عدالت کو درخواست دی گئی ہے جس پرچیف جسٹس نے اومنی گروپ کو نوٹس جاری کرنے اور سی ایم ایچ سے بیمار افراد کا میڈیکل کرا کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم جار ی کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ۔