بلوچستان کو پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے، صوبائی کابینہ نے پانی کے بحران کے پیش نظر صوبے میں واٹر ایمرجنسی لگائی ہے

تاکہ دستیاب پانی کے صحیح مصرف کو یقینی بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جاسکے، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان

منگل 23 اکتوبر 2018 23:12

بلوچستان کو پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے، صوبائی کابینہ نے پانی ..
کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اکتوبر2018ء) وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کو پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے تاہم ابھی تک ہمیں صحیح معنوں میں اس صورتحال کا ادراک نہیں جو مستقبل میں ایک بڑے بحران کی صورت میں سامنے آسکتی ہے، صوبائی کابینہ نے پانی کے بحران کے پیش نظر صوبے میں واٹر ایمرجنسی لگائی ہے تاکہ دستیاب پانی کے صحیح مصرف کو یقینی بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپین یونین کے زیراہتمام پانی کے ذرائع کی بہتری کے حوالے سے منعقدہ مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں آبی ماہرین نے پانی کے بہتر استعمال اور پانی کے ذخائر میں اضافے کے حوالے سے سفارشات پیش کیں، صوبائی وزیر پی ایچ ای نورمحمد دمڑ، چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر ودیگر حکام، مختلف بین الاقوامی اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندے بھی ورکشاپ میں شریک تھے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کے دستیاب ذخائر کا بہتر استعمال پاکستان اور بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے روزمرہ کی ضروریات، زراعت اور صنعتوں کے لئے پانی کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بلوچستان کا معاشی مستقبل بھی پانی سے وابستہ ہے کیونکہ یہاں 70فیصد سے زائد آبادی کا روزگار زراعت اور لائیواسٹاک کے شعبوں سے منسلک ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت پاکستانی اور بلوچستانی لوگ اس مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں، اگر لوگوں میں پانی کے صحیح استعمال کا شعور اجاگر ہوگا تو بڑی حد تک پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبہ میں پانی کے کم استعمال کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور کم پانی کی فصلوں کو متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان وسیع وعریض لیکن پسماندہ صوبہ ہے جہاں بارشیں کم اور موسم خشک رہتا ہے، ہماری چراگاہیں ختم ہورہی ہیں، قدیم کاریز کا نظام بھی متروک ہوچکا ہے اور مالدار نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دیگر قدرتی وسائل تو موجود ہیں لیکن پانی کا ذریعہ دستیاب نہیں، ہم کوئٹہ میں جتنی بھی ترقی کرلیں لیکن اگر پانی نہیں ہوگا تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں جائیں گے۔

ہمارے پاس وسائل اور اختیار موجود ہیں صرف ترجیحات کے تعین اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ وسائل کو بہتر طریقے سے بروئے کار لایا جاسکے خاص طور سے زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس شعبہ میں ہماری معاونت اور رہنمائی کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وسائل کا بہتر استعمال کسی بھی حکومت کی کامیابی کا زینہ ہوتا ہے اگر گذشتہ برسوں میں اس جانب توجہ دی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی، صوبے میں ڈیمز اور چیک ڈیمز بنے لیکن ان کی افادیت ایک سوالیہ نشان ہے، گوادرمیں چھ ڈیسیلینشن پلانٹ لگائے گئے جو تاحال غیر فعال ہیں، گوادر کو میرانی ڈیم اور دیگر ذرائع سے ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی پر ساڑھے تین ارب روپے سالانہ اخراجات ہورہے ہیں اور صوبے میں لاتعداد ایسے منصوبے ہیں جو نامکمل چھوڑدیئے گئے اومانی گرانٹ سے پسنی میں غیر آباد مقام پر ہسپتال قائم کیا گیا انہوں نے کہا کہ اختیارات اور وسائل کا غلط استعمال ہوگا تو نتیجہ بھی غلط نکلے گا۔

ہم سیاسی حکومت کے طور پر صوبے کی ترقی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کررہے ہیں جو منصوبے پی ایس ڈی پی کے کتاب میں ہوں گے وہ معیار کے مطابق زمین پر بھی نظر آئیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت پانی کے مسئلے کو بھی حل کرے گی تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز اور معاشرے کے تمام افراد کو بھی صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے پانی کے بہتر استعمال کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پانی کا ایک ایک قطرہ ہمارے لئے قیمتی ہے جو انسانی حیات کی بقاء کی بنیاد ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ واٹر ٹاسک فورس میں آبی ماہرین او رغیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوںکو بھی شامل کیا جائے گا کیونکہ اس میںمشاورت کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے ورکشاپ کے انعقاد پر یورپین یونین کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ورکشاپ میں تیار کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ورکشاپ سے صوبائی وزیر پی ایچ ای نورمحمد دمڑ نے بھی خطاب کیا جبکہ یورپین یونین کے نمائندے اور آبی ماہرین نے ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔