Live Updates

سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر اور تیل ادھار دینے کے بدلے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ،ہم پر مدینے والے کا کرم ہوگیا ہے ،شاہ محمود قریشی

آئی ایم ایف کے پاس پہلے جاتے تو سخت شرائط ماننا پڑتیں ، معیشت کو مستحکم ، بیروزگاری کا خاتمہ اور ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں شریف خاندان شاہی فیملی کے ریڈار میں نظر نہیں آرہا ،تمام ممالک کیساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ،ْ سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات ہورہی ہیں ، ہم محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں ،چاہتے ہیں معاملہ بہتر طریقے سے حل ہو، امریکہ کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا ہے، افغانستان میں امن دونوں کی ترجیحات ہیں،قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشنز کے بعد اب حالات بہتر ہیں، اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر کیااور پاکستان کا دو ٹوک موقف پیش کیا ہے،جیسے جیسے احتساب کا عمل آگے بڑ ھ رہا ہے، اپوزیشن جماعتیں دبائو میں دکھائی دے رہی ہیں، دو ماہ قبل ایک دوسرے پر تنقید کرنیوالے آج قریب ہو رہے ہیں، سی پیک پربلا وجہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، یہ قومی منصوبہ ہے، چین کے ساتھ تجارت کے توازن میں بہتری چاہتے ہیں، وزیر خارجہ کا انٹرویو

بدھ 24 اکتوبر 2018 23:45

سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر اور تیل ادھار دینے کے بدلے کوئی شرط ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اکتوبر2018ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر اور تیل ادھار دینے کے بدلے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے، سعودی عرب نے ثابت کیا وہ ہمارا بہترین دوست ہے، پچھلی حکومتوں نے بھی ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں ملا اس بار ہم پر مدینے والے کا کرم ہوگیا ہے ، آئی ایم ایف کے پاس پہلے جاتے تو سخت شرائط ماننا پڑتیں ، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب میں ملازمت کا حالیہ ریلیف کوئی تعلق نہیں ،ہم معیشت کو مستحکم ، بیروزگاری کا خاتمہ اور ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں ،نواز شریف اور ان کا خاندان شاہی فیملی کے ریڈار میں نظر نہیں آرہا ،پاکستان تمام ممالک کیساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے ،ْ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات ہورہی ہیں ، ہم محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں ،چاہتے ہیں معاملہ بہتر طریقے سے حل ہو، امریکہ کے سامنے اپنا نقطہ نظر رکھا ہے، افغانستان میں امن دونوں کی ترجیحات ہیں،قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشنز کے بعد اب حالات بہتر ہیں، اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر کیااور پاکستان کا دو ٹوک موقف پیش کیا ہے،جیسے جیسے احتساب کا عمل آگے بڑ ھ رہا ہے، اپوزیشن جماعتیں دبائو میں دکھائی دے رہی ہیں، دو ماہ قبل ایک دوسرے پر تنقید کرنیوالے آج قریب ہو رہے ہیں، سی پیک پربلا وجہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، یہ قومی منصوبہ ہے، چین کے ساتھ تجارت کے توازن میں بہتری چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

بدھ کو ایک انٹرویومیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہمارے سعودی عرب سے قریب تر تعلقات ہیں،سعودی عرب کی جانب سے تین ارب ڈالر اور تیل ادھار دینے کے بدلے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سعودی عرب کا ایک اعلی سطحی وفد یہاں تشریف لایاتھا، ہماری ان سے خط وکتابت ہوئی، پھر وزیراعظم عمران خان سعودی عرب گئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس بار ہم سعودی انوسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت کیلئے وہاں گئے،اس دعوت میں شرکت کے علاوہ ہم نے سعودی حکومت کے سامنے اپنی بات بھی رکھی جس پر بہت اچھی پیشرفت ہوئی ہے اور سعودی عرب نے ثابت کیا وہ ہمارا بہترین دوست ہے۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے ویزا فیس 300ریال سے 2000 ریال تک بڑھانے سے پاکستانیوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات درپیش تھیں ، ہماری کوشش تھی کہ اسے پرانی سطح پر بحال کیا جائے تاکہ آمدورفت میں آسانی رہے اور ہم نے یہ بات منوائی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو شدید مالی مشکلات درپیش تھیں اس حوالے سے ہماری سعودی عرب سے بات ہوئی، متحدہ عرب امارات سے بھی بات ہوئی ہے اور اب نومبر کے پہلے ہفتے چین جارہے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ملک کی جومالی صورتحال رہی ہے وہ سامنے ہے میں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا ، ہمیں بہت بڑا کرنٹ اکائونٹ خسارہ ملا، جسے پورا نہیں کیا جاسکتا تھا اور اس کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں لیکن اگر ہم آئی ایم ایف سے اتنی بڑی رقم کا مطالبہ کرتے تو ان کی سخت شرائط ماننا پڑتی تھی کیونکہ رقم جتنی بڑی ہوگی شرائط بھی اتنی ہی سخت ہونگی،اس لئے ہم چاہتے تھے کہ اگر ہم ان کے پاس جائیں تو عام آدمی پر اتنا بوجھ نہ پڑے، ہمیں سعودیہ سے بہت بڑا ریلیف ملا ہے، تین ارب پیکیج کے علاوہ اس سال 3.2ارب ڈالر کا تیل ملے گا، اور اگلے دو سال بھی تین، تین ارب ڈالر کا تیل ملے گااور اس حوالے سے سعودی عرب نے کوئی شرط عائد نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کو مستحکم ، بیروزگاری کا خاتمہ اور ملازمتیں پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ اچھی پیشرفت ہوئی ہے اور اس میں مزید پیشرفت کے امکانات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودیہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے اور آئل ریفائنری لگانے پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 26تاریخ کو متحدہ عرب امارات کا اعلی سطحی وفد آرہا ہے اس سے بھی بات ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سعودیہ چاہتا ہے کہ پاکستان مستحکم ہو کیونکہ اس کے پاکستان کیساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، اس نے پاکستان کو ہمیشہ بہت سپورٹ کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) راحیل شریف کا سعودی عرب میں ملازمت کا حالیہ ریلیف کوئی تعلق نہیں ہے،،ْ سعودی عرب کی جانب سے کوئی شرائط عائد نہیں کی گئی ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش پچھلی حکومت بھی کرتی رہی ہے اس سے پہلے جب آصف علی زر داری صدر تھے اور پیپلز پارٹی کی نئی نئی حکومت آئی تھی اور میں وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر کامیابی نہیں ملی تھی ،اس بارریلیف ملنا مدینے والے کا کرم ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کا خاندان سعودی شاہی خاندان کے ریڈار پر دکھائی نہیں دے رہا، ان کے تعلقات میں جوموڑ آیا ہے اس کا جواب میں نہیں دے سکتااس حوالے سے وہی بہتر جواب دے سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہی ۔

انہوں نے کہا کہ کچھ تعلقات ریاست کے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ تعلقات ذاتی ہوتے ہیں۔ عمران خان اور اس حکومت کا کوئی ذاتی تعلقات کا ایجنڈا نہیں تھا ہمارا ایجنڈا صرف پاکستا ن تھا، وہاں وزیراعظم عمران خان نے شاہ سلمان کے علاوہ دیگر وزراء سے بھی ملاقاتیں کی کی ہیں ۔ اسی طرح ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر نے سعودی وزیر خزانہ سے ،ہمارے وزیر تجارت نے سعودی وزیر تجارت سے اور میں نے وہاںکے وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے، ہم نے وہاں ایک شخصیت سے نہیں سب سے ملاقات کی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی ولی عہد سے وزیراعظم عمران خان کی پہلی ملاقات پچھلی بار جدہ میں ہوئی تھی اور انہوں نے وزیراعظم کیلئے ضیافت کا بھی بندوبست کیا اس بار وزیراعظم کی ان سے دوسری نشست تھی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے سعودی عرب، ترکی ، قطر اور دیگر ممالک کے ساتھ بہترین تعلقا ت ہیں،پچھلے کچھ عرصے سے سعودی عرب اور قطر کے تعلقات کشیدہ ہیں جس پر ہمیںتشویش ہے ان حالات میں عرب ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی اپنا کردار ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرسکے گی، چاہتے ہیں معاملات بہتر طریقے سے حل ہوں۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل بارے سوال پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ استنبول کاواقعہ انتہائی افسوناک ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ملوث مجرمان کو سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے معاملہ بہتر انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دونوں ممالک کیساتھ اچھے تعلقا ت ہیں اور ہم محتاط طریقے سے آگے چل رہے ہیں اور چاہتے ہیں معاملہ بہتر طریقے سے حل ہو۔

انہوں نے کہا کہ ترکی کا اپناقانون ہے اور سعودی عرب کا اپنا قانون ہے ،دونوں کو اس حوالے سے مل بیٹھ کرجمہوری طریقے سے سب کچھ طے کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امہ کے تقسیم ہونے سے طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے، پاکستان نہیں چاہتا کہ امہ تقسیم ہو۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک چاہیں تو ہم ثالث کا کردار ادا کرینگے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ میری دو نشستیں ہوئی ہیں ، ایک یہاں پاکستان میں اور دوسری اقوام متحدہ میں اور دونویں نشستیں اچھے ماحول میں ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنا نقطہ نظر ان کے سامنے رکھا ہے ، ہم دونوں کی ترجیحات ایک ہیں اور وہ یہ کہ افغانستان میں امن قائم ہو، افغانستان میں امن سے پاکستان براہ راست مستفید ہوگا ،اس کے علاوہ دوسری دنیا بھی اس سے مستفید ہوگی، وہاں قیام امن سے دہشت گردی میں کمی واقع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف چیلنج دونوں طرف تھا ہماری افواج نے آپریشن کیا اپنی جانیں دیں، عوام نے جانیں دیں، پولیس نے جانیں دیں ، الحمد اللہ اب ایک کامیاب آپریشن کے بعد بتدریج دہشت گردی کے واقعات اور خود کش حملے کم ہوئے ہیں ،اب حالات قدرے بہتر ہیں اور پاکستان میں امن واستحکام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے قبائلی علاقوں میں آپریشنز کیساتھ سیاسی عمل کو بھی آگے بڑھایا ہے ، نیشنل ایکشن پلان پر کام جاری ہے اس پر مزید پیشرفت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا میں بھی امن بحال کیا ہے اور اسے قومی دھارے میں لایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپریشن زدہ علاقوں میں ترقیاتی عمل کو بھی آگے بڑھایا وہاں انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہتری دکھائی دے رہی ہے اب بارڈر کے اس طرف افغانستان میں جھانکنا ہوگا، وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا دنیا کو پتا ہے ہم نے بھی کئی کی نشاندہی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پومیپو کو دعوت دی ہے کہ وہ قبائلی علاقوں میں جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں اور وہاں امن وامان کو دیکھیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج امریکہ افغانستان میں امن کیلئے طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہے، اس کی دوحہ میں ان سے دو نشستیں بھی ہو چکی ہیں، امریکہ مان چکا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں بلکہ یہ مسئلہ بات چیت ہی سے حل ہوسکتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امن ہماری ضرورت ہے اور ہم افغانستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بلیم گیم اور الزامات لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، وہاں سے پچھلے دنوں آنیوالے ایک بیان پر بہت تعجب ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہوگا، پاکستان پر ملبہ پھینکنا نا مناسب ہوگا، پاکستان پر ملبہ ڈالنا ہے تو ہم نے جو قربانیاں دی ہیں تو اس کا بھی احاطہ کریں، پاکستان نے جو قربانی دی ہے اس کو ماننا ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا دورہ افغانستان کا کیا اور پیغام لیکر گیا کہ ہم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، ہمارا جغرافیہ ایک ہے، انگلیاں اٹھانے ،الزامات اور تہمتیںلگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ہمیں افغانستان کے درد کو اپنا اور پاکستان کے درد کو افغانستان کو سمجھنا ہوگا بات تب ہی آگے بڑھے گی۔ایک سوال پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نہیں چاہیں گے کہ افغانستان کی سرزمین کو بھارت یا کوئی اور ہمارے خلاف استعمال کرے، ہم نے افغانستان سے اس حوالے سے گزارش بھی کی ہے اور وہ اس کو سمجھتے بھی ہیں ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جیسے ہی حکومت وجود میں آئی وزیراعظم عمران خان نے بھارت سے کہا وہ ایک قدم اٹھائے ہم دو اٹھائینگے ، مسائل کو حل کرنے کاایک ہی راستہ ہے اور وہ مل بیٹھ کر ہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھارت مذاکرات کیلئے مانا مگر پھرانکار کردیا۔بھارت کے پاکستان آنے سے کترانے سے ایک ارب 78 کروڑ کی آبادی کو نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں مقبوضہ کشمیر کا ذکر کیااور پاکستان کا دو ٹوک موقف پیش کیاہے ۔

اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیشن کی جون میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالی جارحیت کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی ہے، اقوام متحدہ کو ایک مشن تشکیل دینا چاہئے جو وہاں جائے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرکی صورتحال بتدریج بگڑ رہی ہے ، پچھلے کچھ دنوں میں وہاں دس شہادتیں ہو ئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان کے دانشور کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی حکمت عملی ٹھیک نہیں ہے اس کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت اپوزیشن کی دو بڑی اور دیگر جماعتیں دبائو میں دکھائی دے رہی ہیں ،جیسے جیسے احتساب کا عمل آگے بڑھ رہا ہے وہ مزید دبائو کا شکار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی دو ماہ قبل تو وہ ایک دوسرے پر سخت تنقید کررہے تھے اور آج پھر وہ قریب ہو رہے ہیں یہ سب وہ اپنے مفادات کیلئے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلی حکومت کی بار ایک سال انتظار کیا تھا اور پھر پرامن لانگ مارچ کیا تھااور اس لانگ مارچ میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا تھا، انہوں نے تو حکومت کے آتے ساتھ ہی واویلا شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن تو حلف ہی نہیں اٹھا رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ سامنے آنیوالا دبائو سارے کنبے کو جوڑ رہا ہے اور یہ حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر انگلیاں اٹھائی جاتی تھیں کہ یہ حکومت کو ڈی ریل کررہے ہیں ، اب یہ بتائیں ان کو کس کا اشارہ ہے، ہم نے ان کے مطالبے پر الیکشن 2018ء کے معاملے پر کمیٹی بنائی ہے،انہوں نے خود کمیٹی بنوائی ہے تو اس کو کام کرنے دیں، ان کے مفادات اب بدل گئے ہیں ،پانچ سال پہلے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار تھا اور اب یہ یکجا ہو رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس بار ہونیوالے ضمنی انتخابات اور پچھلی بار ہونیوالے ضمنی انتخابات کا موازنہ کیا جائے تو دیکھیں پچھلی با ر مقامی حکومتوں کو استعمال کیا گیا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، کچھ سیٹیں ہارنا ناکامی نہیں بلکہ یہ ایک کامیابی ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سی پیک پربلا وجہ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، قسم قسم کے بیانات دیئے گئے اور کچھ ہیڈ لائنز بھی شائع ہوئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے ہا کہ سی پیک ایک قومی منصوبہ ہے، حکومتیں آتی جاتی رہیں گی ، اس منصوبے کو نیشنل آنر شپ مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف کے زمانے میں جو منصوبے ہوئے ان کی ترجیحات سے ہمیں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہم نے ان کو روکا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات سی پیک سے زیادہ بڑے ہیں، چین سے سی پیک کے اگلے فیز کی بھی بات کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کو پروموٹ کرنا چاہتے ہیں، چین اور پاکستان کی تجارت کو دوبارہ دیکھ رہے ہیں اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تجارت کے توازن میں بہتری چاہتے ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات