راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اکتوبر2018ء)
بے نظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے کے بعد دائر 3الگ الگ اپیلوں کی
سماعت کے لئے تشکیل ڈویژن بنچ میں شامل جسٹس راجہ شاہدمحمود عباسی نے اپیلوں کی
سماعت سے معذرت کر لی ہے جس پر تمام اپیلوں کی
سماعت ایک بار پھر ملتوی کر دی گئی ہے
عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ کے جسٹس محمدطارق عباسی اور جسٹس راجہ شاہدمحمود عباسی پر مشتمل ڈویژن بنچ کے روبرو سابق وزیر اعظم
بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ماتحت
عدالت عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر الگ الگ اپیلوں کی
سماعت کے موقع پرسابق سدر آصف علی
زرداری کے وکیل سردار
لطیف کھوسہ کے علاوہ سابق وزیر اطلاعات
قمر زمان کائرہ ،آصف
زرداری کے ترجمان عامر فدا پراچہ، سابق وزیر اعظم
راجہ پرویز اشرف کے بھائی راجہ عمران اشرف اورشازیہ
مری بھی موجود تھے ہائی
کورٹ راولپنڈی بنچ میں بے نظیر
قتل کیس کے متعلق 3الاگ الگ اپیلیں زیر
سماعت ہیں ایک اپیل میںوفاقی حکومت نے
بے نظیر بھٹو قتل کیس سے انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی
عدالت کے فیصلے کوچیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ
عدالت نے مقدمہ میں گرفتارپانچوں ملزمان محمد رفاقت ،حسنین گل ،شیر زمان ،رشید احمد اور اعتزاز شاہ کے خلاف ٹھوس شواہدہونے کے باوجودبری کر دیا جو انصاف کے منافی ہے لہٰذا ماتحت
عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے
پیپلز پارٹی کی جانب سے دائر اپیل میںموقف اختیار کیا تھاکہپولیس افسران کو صرف 2الزامات میں سزا دی گئی جبکہ ٹرائل
کورٹ میں سابق وزیراعظم
بے نظیر بھٹو کے
قتل میں ملوث افراد کے خلاف مجموعی طور پر 11الزامات عائد کئے گئے اپیل میں کہا گیا ہیکہ مقامی پولیس
بے نظیر بھٹو قتل کی سازش میں ملوث تھی صرف 2
پولیس افسران کو سزا دی گئی، فیصلے میں 302 کا ذکر تک نہیںکیا گیاجبکہ وفاقی حکومت نے بھی
پولیس افسران کی سزائوں میں اضافے کے لئے اپیل دائر کر رکھی ہے پیپلزپارٹی نے اپیلوں میںموقف اختیار کررکھا ہے کہ ماتحت
عدالت کی طرف سے عجلت میں جاری کیا گیا فیصلہ حقائق اور
ریکارڈ کے برعکس ہے
عدالت پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ شواہد اور مقدمہ کے حقائق کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہی ہے ٹرائل کے دوران قانونی نکات کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس ملزم کو کم عمر ہونے کی بنا پر بری کیا اس کی حد تک بھی قانونی نکات کو مدنظر نہیں رکھاگیا اس طرح عجلت میں جاری فیصلے میں انصاف کا خون ہوا ہے یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی
عدالت نمبر1کے جج محمد
اصغر خان نے 31اگست2017کو بے نظیر
قتل کیس کا ٹرائل مکمل ہونے پر مقدمہ میں نامزد پہلے سے گرفتار 5ملزمان محمد رفاقت ،حسنین گل ،شیر زمان ،رشید احمد اور اعتزاز شاہ کو عدم ثبوت کی بنا پر مقدمہ سے بری کر نے کے ساتھ سی پی او راولپنڈی سعود عزیز اور سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد کو تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 119اور201کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجموعی طور پر 17،17سال قیداور10لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ سابق صدر
پرویز مشرف کو
عدالت سے روپوشی اور دانستہ عدم حاضری پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیدا ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے جبکہ مقدمہ میں نامزدتحریک
طالبان پاکستان کے رہنمابیت اللہ محسود ،عباد الرحمان عرف نعمان عرف عثمان،عبداللہ عرف صدام،فیض محمد، اکرام اللہ ،نصراللہ ،نادر عرف قاری اسماعیل پر مشتمل7ملزمان کو مسلسل عدم حاضری پر
عدالت نے پہلے ہی اشتہاری قرار دے رکھا تھایاد رہے کہ سانحہ لیاقت باغ میں سابق وزیر اعظم
بے نظیر بھٹو اورپیپلز پارٹی کی23کارکنان کی المناک موت کے بعد
تھانہ سٹی
پولیس کے ایس ایچ او کاشف
ریاض کی مدعیت میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7اے ٹی اے اورایکسپلوزو ایکٹ کی دفعہ4/5کے علاوہ تعزیرات
پاکستان کی دفعات 302,324,435,436,120B,119,201,109,34 کے تحت درج مقدمہ نمبر 471درج کیا گیا تھا نامعلوم ملزمان کے خلاف درج ابتدائی ایف آئی آر میں سعود عزیز اور خرم شہزاد دونوں ملزم نہیں تھے بعد ازاں انہیں شامل تفتیش کرنے کے بعد ایف آئی آر میں تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 119اور201کا اضافہ کیا گیا تھا۔