غازی علم دین شہید کا 89 واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے

میانی صاحب قبرستان میں ان کے مزار پر ہرسال عرس کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 31 اکتوبر 2018 11:45

غازی علم دین شہید کا 89 واں یوم شہادت آج منایا جارہا ہے
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 31 اکتوبر۔2018ء) غازی علم دین شہید کا 89 واں یوم شہادت آج لاہور میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا. 4 دسمبر 1908ءکو کوچہ چابک سوارں لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھر میں پیدا ہوئے. جو بڑھئی کا کام کرتے تھے‘ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے‘ جن کا اپنے علاقے کے جانے پہچانے کاریگروں میں شمار ہوتا تھا.

وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے‘ان کا ایک بیٹا پڑھ لکھ کر سرکاری نوکری کرنے لگا، اور دوسرا محمد امین والد کے ساتھ لکڑی کے کام پر ہی رہا، علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی. تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اس فن میں ہی اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی.

1928 میں آپ کوہاٹ منتفل ہو گئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا.لاہور کے ایک ناشر شیطان صفت ‘راجپال’ نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ایک دل آزارکتاب شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔

(جاری ہے)

جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا. مسلمان راہنماﺅں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تو مجسٹریٹ نے ناشر راجپال کو صرف چھ ماہ قید کی سزا پر ہی اکتفا کیا.

جس کے خلاف مجرم نے ہائی کورٹ میں مزید اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا.انگریز حکومت کی عدم توجہی سے مایوس ہو کر مسلمانوں نے متعدد جلسے جلوس منعقد کئے مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان راہنماﺅں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا جس سے مسلمانوں میں یہ احساس جاگزیں ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ جان گئے کہ اس ملعون کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا.

اسی دوران لاہور کے ایک غازی خدا بخش نے 24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم وہ خبیث بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا‘ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی‘ اسی طرح ایک اور مرد مجاہد گھر سے کفن باندھ کر نکلا، جو افغانستان کا ایک غازی عبدالعزیز تھا، جس نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کارخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا‘غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو ہی راجپال سمجھ کر ٹھکانے لگا دیا.

غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے 14 سال کی سزا سنائی. اپریل 1929 کو غازی علم دین شہید کے ہاتھوں راجپال جہنم واصل ہوا . 22 مئی1929 کو انہیںسزائے موت کا حکم سنایا گیا. مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لئے شہرہ آفاق وکیل قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ تعالی علیہ کو نامزد کیا گیا.چنانچہ محمد علی جناح بمبئی سے لاہور تشریف لائے جن کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی 7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا، جسے اپیل کے بعد 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے دو ججوں نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا اور غازی کی اپیل خارج کردی.

اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی علم دین کو ملی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا. بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیے ہزار ابدی سکون وراحت ہے. اس قتل کی جزا کے طور پر 31 اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں عمل درآمد کیا گیا.

آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں ہی رکھا، اور کسی نامعلوم مقام پر سپرد خاک کردیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی اور 4 نومبر 1929 کو مسلمان راہنماﺅں کے ایک وفد جن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمة اللہ تعالی علیہ ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا.

گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ‘مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی.13 نومبر 1929 کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا.

موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی میں ذرا بھی تعفن نہیں تھا، اور لاش بالکل صحیح وسالم تھی. چہرے پر جلال و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی. محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929 کو لاہور چھاﺅنی میں دو مسلم راہنماﺅں جناب محمد علامہ اقبال رحمة اللہ تعالی علیہ اور سر محمد شفیع صاحبان کے حوالے کیا.غازی علم دین شہید رحمةاللہ تعالی علیہ شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ کہلاتا ہے، جس میں تقریبا اس وقت 6 لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی.

جنازہ کا جلوس تقریبا ساڑھے پانچ میل لمبا تھا. غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی اور مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال رحمة اللہ تعالی علیہ نے غازی علم دین شہید رحمة اللہ تعالی علیہ کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا. غازی علم دین شہید کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جہاں ہر سال ان کا عرس منعقد ہوتا ہے.