امریکہ کا آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کا پاکستان سے آسیہ بی بی کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 1 نومبر 2018 14:57

امریکہ کا آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔یکم نومبر2018ء) امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے آسیہ بی بی کی سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ایک رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2010میں پانچ بچوں کی ماں اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کا حکم جاری ہوا تھا۔آسیہ بی بی کیس میں یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے سنایا گیا۔

آسیہ بی بی نے اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔پاکستان کے دو حکمران اہلکار جن میں کابینہ کے ایک رکن شہباز بھٹی اور ر پنجاب کے گورنر گورنر سلمان تاثیر 2011 میں قتل ہوئے تھے.یو ایس سی آئی آر ایف کے چیئرمین ٹینزن ڈورجی نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی کا کیس ظاہر کرتا ہے کہ توہین رسالت کے قوانین کو اقلیتی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے تحت اس طرح کے قوانین ہر مذہب کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ انفرادی طور پر۔آسیہ بی بی کا کیس اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ وہ پاکستان میں توہین رسالت کے الزم میں سزا پانے والی پاکستان کی تاریخ کی پہلی انسان بن گئی۔امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی پر اس کی حفاظت یقینی بنائیں۔

یو ایس سی آر ایف نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ توہین رسالت کے الزام میں قید 40 افراد کو رہا کریں اور توہین مذہب کے قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔خیال رہے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی آزادی مذہب نے اس سے قبل بھی پاکستان میں آزادی مذہب کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ مئی کے مہینے میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آئی آر ایف ) نے دوبارہ اس بات کی تجویز دی ہے کہ پاکستان کو خاص تشویش والا ملک قرار دیا جائے ۔

خیال رہے کہ 22 دسمبر 2017 کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں شامل ہونے یا برداشت کرنے سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں شامل کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس اقدام کے حوالے سے میڈیا میں بیانات گردش کررہی تھیں کہ رواں سال انتظامیہ پاکستان کو خاص تشویش ناک ملک قرار دے سکتی ہے اور اس پر نئی پابندیوں کا اطلاق ہوسکتا ہے لیکن پاکستان رواں سال بھی اس میں شامل ہونے سے محفوظ رہا۔

اس حوالے سے امریکی کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس پاکستان میں 50 افراد کو توہین مذہب کے الزام میں قید کیا گیا، جس میں 17 کو سزائے موت دی گئی۔امریکی کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں انتظامیہ نے توہین مذہب کے قانون جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے تحت ہونے والی سزاؤں میں عمر قید سے لے کر سزائے موت شامل ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ مذہب کو جواز بنا کر اشتعال انگیزی کرنا ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے پاکستان، افغانستان، بھارت، ایران اور روس میں اقلیتیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا بڑے پیمانے پر سامنے کر رہی ہیں۔امریکی ادارے کی رپورٹ میں مشال خان قتل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں بتایا کہ اپریل 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کا الزام لگا کر ایک طالب علم کو تشدد کے بعد ہلاک کردیا گیا جبکہ تفتیش میں یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا۔

اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2017 میں نامعلوم حملہ آوروں نے پاکستان میں شیعہ، ہزارہ اور احمدیوں کو نشانہ بنایا جبکہ ہزاہ برادری پر حملوں کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور 5 مختلف واقعات میں 15 افراد کو قتل کردیا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں اردو زبان کا ذرائع ابلاغ اقلیتی گروہوں سے متعلق رپورٹ میں جانبدار رہا اور مختلف مواقع پر میڈیا نے نامناسب زبان کا استعمال کی۔