Live Updates

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینٹ اجلاس ، وزراء کی عدم حاضری پر اپوزیشن کا شدید احتجاج ، واک آئوٹ کرگئے ،

وزراء کی حاضری پوری نہ ہونے تک واک آئوٹ جاری رہا سینٹ کی کارروائی کو سنجیدہ لیا جائے ،وزراء کو منا کر واپس لایا جائے ، چیئرمین سینٹ برہم، ہمارے وزراء کابینہ اجلاس میں گئے ہوئے ہیں ، شبلی فراز ، سینیٹر نعمان ، شیخ عتیق اپوزیشن کو منا کر واپس لائے قانون ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے،کچھ سیاسی جماعتوں کے ورکرز نے جلائو گھیرا ئوکیا،ہم پاکستانیوں پر گولیاں نہیں برسائیں گے بلکہ ان کو گلے لگائیں گے، شہریار آفریدی اپوزیشن نے توہین آمیز خاکوں پر حکومتی اقدام کی تعریف کی ہے،عدالتی حکم پر عمل در آمد حکومت کی ذمہ داری ہے، تمام پارلیمنٹیرین کے لیے قومی سلامتی سے متعلق ایک حد کا تعین ہونا چاہیے ، تاکہ کوئی بھی پارلیمنٹیرین سیاسی مفاد کے لیے اس حد کو پار نہ کرے جس سے ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو، وزیر مملکت داخلہ کا سینٹ اجلاس میں ا ظہار خیال وزیراعظم اعلان کر چکے مگر یاد نہیں کہ کشکول توڑیں گے کسی ملک سے قرضے لینے سے بہترخود کشی کرنے کا کہا تھا،حکومتی وزیرغیر حاضر ہیں،اس سے سینیٹ کا وقار مجروح ہوا ہے،وزیر اعظم نے الیکشن جیتنے کے بعد قوم سے خطاب میں کہا کہا تھا جب کھبی پاکستانی حکمران باہر مانگنے جاتے ہیں تو لوگوں کے سر جھک جاتے ہیں،پہلے دورے کے بعد وزیر اطلاعات نے کہاتھا کہ پیکج کی بات ہوئی مگر شرائط سخت تھی جسے پورا نہیں کر سکتے،وزیر خارجہ نے پیکج دینے پر بات کی،آئی ایم ایف کے پاس پہلی حکومتیں بھی جاتی رہیں مگر قرضہ ملنے پر کبھی بھی مبارکباد نہیں دیں،ماضی میں مارشل لائ حکومتوں نے عوامی ترقی کی بجائے غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسز سے ملک کی خارجی و داخلی بھی متاثر ہوتے ہیں سینیٹر سرداعظم موسی خیل ،سینیٹر جاویدعباسی، عثمان کاکڑ و دیگر سینیٹر کا سینٹ اجلاس میں اظہار خیال

جمعرات 8 نومبر 2018 17:29

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینٹ اجلاس ، وزراء کی عدم حاضری ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 نومبر2018ء) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس شروع ہوا تو وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن کا شدید احتجاج ایوان سے واک آئوٹ کرگئے ، حکومتی وزار کی عدم حاضری پر صادق سنجرانی برہم ہوگئے ، حکم دیا کہ وزیراعظم کو پیغام دیں کہ سینیٹ کی کارروائی کو سنجیدہ لیا جائے، سخت احتجاج اور چیئرمین سینٹ کی برہمی پر پانچ وزرا کو کابینہ کے اجلاس سے ایوان میں آنا پڑا۔

چیئرمین صادق سنجرانی نے اجلاس کی صدارت کی۔وزرائ تو ایوان میں پہنچے لیکن سینیٹ میں ارکان کی کمی واقع ہوگئیکورم پورا نہ ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومتی وزرا کی عدم حاضری کے سبب سینیٹ اجلاس سے واک آئوٹ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وزرا نہیں آئیں گے تب تک ہمارا واک آوٹ رہے گا۔

(جاری ہے)

سینیٹر شبلی فراز نے بتایا کہ ہمارے وزرا کابینہ اجلاس میں ہیں۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قائد ایوان کو ہدایت کی کہ اپوزیشن کو منا کر واپس لایا جائے۔ قائد ایوان شبلی فراز سینیٹر نعمان وزیر اور شیخ عتیق اپوزیشن کو منا کر واپس لائے۔اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے بعد حکومت کی جانب سے 5 وزرا نے کابینہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور، وزیرتوانائی عمرایوب، وزیرمملکت شہریار آفریدی، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی، مراد سعید اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ اجلاس میں شرکت کی۔

اس موقع پر وزیر مملکت شہریار آفریدی کا سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔کچھ سیاسی جماعتوں کے ورکرز نے جلا ئو گھیرائوا کیا ۔ہم پاکستانیوں پر گولیاں نہیں برسائیں گے بلکہ ان کو گلے لگائیں گے،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے توہین آمیز خاکوں پر حکومتی اقدام کی تعریف کی ہے۔عدالتی حکم پر عمل در آمد حکومت کی ذمہ داری ہے،انہوں نے کہا کہ ہم نمبر بنانے کے لیے گرفتاریاں نہیں کر رہے،حکومتی رٹ چیلنئج کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی۔

چاہے وہ ایوان کا حصہ ہوں یا نہ ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج کے موقع پر تمام پارٹیاں ایک پیج پر تھیں۔کسی بھی ملک کے لیے قومی سلامتی اور امن اہم ہوتا ہے۔جب کہ تحریک لبیک کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے وزرا کو لگام دے جو مداخلت فی الدین کر کے ملک میں فساد فی الارض پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قومی میڈیا کا ایک مخصوص طبقہ بھی چنگاری کو بھڑکتے شعلے بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سے پر خلوص معاہدے کیے جن پر ہم خلوص سے عمل کررہے ہیں لیکن بعض وزرا اور نوکر شاہی میں موجود کالی بھیڑیں حکومت اور تحریک لبیک کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گی اس کو من و عن نافذ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔عدالتِ عظمی کے فیصلے کے بعد جو دھرنے ہوئے انہیں حکومت نے احسن انداز میں بغیر کسی خون خرابے کے معاہدہ کرکے ختم کروایا، جس کا سہرا وزیرِ مواصلات، نیشنل ہائی وے اینڈ موٹروے اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کو جاتا ہے۔

معاہدوں کے باوجود کچھ شرپسند عناصر نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور ہنگامہ آرائی کی، میں اس ایوان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ان میں سے ایک کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔شہریار آفریدی نے بتایا کہ جب جلا گھیرا کی ویڈیوز تحریک لبیک کو دکھائی گئیں تو انہوں نے شرپسندوں سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شرپسندوں کا ڈیٹا بھی حاصل کرلیا گیا ہے جبکہ ان فوٹیجز کی جیو فینسنگ اور فارنزک جاری ہے۔ ہم نمبر بڑھانے کے لیے گرفتاریاں نہیں کر رہے بلکہ ایک قانونی طریقے سے فریم ورک کے ساتھ اس معاملے میں حکومت آگے جارہی ہے۔وزیرِ مملکت نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا واضح پیغام ہے کہ قانون میں سب برابر ہیں، چاہے اس میں اراکینِ پالیمنٹ یا وفاقی کابینہ کے وزرا ہی شامل کیوں نہ ہوں۔

اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہ تمام پارلیمنٹیرین کے لیے قومی سلامتی سے متعلق ایک حد کا تعین کریں، تاکہ کوئی بھی پارلیمنٹیرین سیاسی مفاد کے لیے اس حد کو پار نہ کرے جس سے ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو۔سینیٹر سرداعظم موسی خیل نے کہا کہ وزیراعظم اعلان کر چکے مگر یاد نہیں کہ کشکول توڑیں گے،کسی ملک سے قرضے لینے سے بہترخود کشی کرنے کا کہا تھا،حکومتی وزیرغیر حاضر ہیں،اس سے سینیٹ کا وقار مجروح ہوا ہے،سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ فاٹا کو بحالی و تعمیر نو چاہئے،پانی ،بجلی چاہئے،وہاں پولیس کی کوئی ضرورت نہیں،خاصہ دار فورس اور لیویز کو ایکسٹنٹ کیا جائے وزیر اعظم نے اہنے اعلان کی خود نفی چایئے،وزیر موجود نہیں،ہاؤس کو عزت نہیں دیتے،وہ شہنشاہ بنے ہوئے ہیں،ملک میں قرضوں اور کشکول کا کلچر مارشل لائ دور کا پیدا کردہ ہے،ملک میں موجود وسائل کواستعمال کرنیکی بجائے قرضوں کی حصول پر توجہ دی گئی،یہ دھاندلی زدہ حکومت ہے،افسوس کے ساتھ ایک پارٹی نے قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہے کہا،ہم ہرگز نہیں کہیں گے کہ ہم آپ کیساتھ ہیں،یہ دھاندلی زدہ حکومت ہے،سی پیک گوادر کے بغیر بے معنی ہے،وزیر خارجہ نیگوادر کو قصبہ قرار دیا انکی معلومات کم ہیں،گوادر قصبہ نہیں جنت کا ٹکڑا ہے،سی پیک ہمارے صوبے کے خلاف ہوا،صوبے سے پوچھا تک نہیں گیا،سی پیک بس لاہور کیب جائے اسلام آباد سے روانہ چاہئے تھا،ہم بھی پاکستان کی قرضوں میں برابر کے شریک ہیں مگر ہمیں قرضوں کے حصول سے علم رکھا گیا،وہ قرضے ہمیں منظور نہیں جس سے ہمارے صوبے میں ترقی نہ ہوں،جتنے قرضے لیے گئے ہیں کہاں استعمال ہوں گے اس بارے میں بتایا جائے،نا انصافی کسی صورت برداشت نہیں،یہ حکومت عوام کے خلاف اسلئے ہے کہ عوام نے اسے ووٹ نہیں دیا،آتے ہی حکومت نے ،جس ملک کا کشکول سے گزراہ ہو وہ یمن معاملے پر کسے ثالثی کر سکتا ہے،ہم دوسروں کی جنگ میں شرکت کی سے ملک کو نقصان پہنچا،اس ملک میں ہر فیصلے کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہونی چاہئے۔

سینیٹر جاویدعباسی نے کہا کہ پاکستان جب کبھی مشکل میں ہو ہم نے کبھی سیاست نہیں کی،سعودیہ سے دیرینہ تعلق رہا ہے،ہر مشکل گھڑی میں سعودیہ نے پاکستان کا ساتھ دیا،وزیر اعظم نے الیکشن جیتنے کے بعد قوم سے خطاب میں کہا کہابتھا کہ جب کھبی پاکستانی حکمران باہر مانگنے جاتے ہیں تو لوگوں کے سر جھک جاتے ہیں،پہلے دورے کے بعد وزیر اطلاعات نے کہاتھا کہ پیکج کی بات ہوئی مگر شرائط سخت تھی جسے پورا نہیں کر سکتے،وزیر خارجہ نے پیکج دینے پر بات کی،آئی ایم ایف کیپاس پہلی حکومتیں بھی جاتی رہیں مگر قرضہ ملنے پر کبھی بھی مبارکباد نہیں دیں،پہلی مرتبہ قرضہ ملنے پر قرضہ ملنے پر مبارکباد دی گئی،چین سے 6ارب ڈالر قرضہ ملنے کی نوید سنائی،سی پیک پر متنازعہ بیان دینیطوالے مشیر کو بھی ساتھ لے گئے،بہتر ہوتا کہ اس کو ساتھ نہ لے جاتے،نواز شریف کیدور میں پہلی مرتبہ کسی ملک نے پاکستان میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی،اس کو بعد میں 56بلین ڈالر تک لے گیا،چین میں جب مشترکہ اعلامیہ آیا تو کہا گیاکہ سی پیک کینیچے بجلی منصوبے سب سے بہتر لگے ہیں،جس میں کوئی کرپشن نہین ہوئی،ملک کے اندر کچھ اور موقف باہر کی دنیا میں کچھ اور ہوتا ہے،چین میں جاکر کراعتراف کرنے پر خوشی ہوئی اور آہستہ آہستہ پاکستان میں بھی مانیں گے،مہربانی کر کے دنیا میں پاکستان کو چور و ڈاکو نہ کہیں،دنیا میں پاکستان کا تماشا مہ کریں،سعودی عرب میں ڈونرز کانفرنس اور چین میں بھی جا کر کہاکہ پاکستان میں بہت کرپشن ہیں،ادارے کرپشن کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں،اگر کسی پر کرپشن ثابت ہو جائیں تو الٹا لٹکائے صرف الزامات نہ لگائیں،آئی ایم ایف کے کہنے پر صرف غریبوں کیلئے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا،حکومت غریبوں سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا ہی وزیر اعظم نے یمن کے معاملے پر دونوں ملکوں کے میں ثالثی کی بات کی،وزیر خارجہ ایوان میں کہا کہ اس حوالے کسی ملک سے باضابطہ کسی سے بات نہیں ہوئی،وقت سے پہلے بات کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک پر30ہزار ارب کا قرضہ ہے،عوام پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ان قرضوں کو کہاں استعمال کیا گیا،ماضی میں مارشل لائ حکومتوں نے عوامی ترقی کی بجائے غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا،آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسز سے ملک کی خارجی و داخلی بھی متاثر ہوتے ہیں،امدادتودور کی بات کوئی قرضہ دینے کو تیار نہیں،سعودی عرب کا نہ امداد ہے نہ قرض بلکہ بلکہ سودا بازی ہوئی ہے،پارلیمنٹ کو اس سودا بازی کے بارے میں بتایا جائے،ہم نے کبھی اپنے ملک کے لئے خارجہ پالیسی نہیں بنائی گئی،مشرق وسطی وسطی اور عرب ممالک کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی غلط ہے،ہم غیر جانبدار ہرگز نہیں،پہلے ہم خارجہ پالیسی میں امریکہ امریکہ اور یورپ کیتابع تھے اب چین کے تابع ہے،روس پہلے کافر اس کے خلاف اور آج اس کیساتھ ہیں،ہم نے ہمیشہ کرائے کی مزدور کا کردار ادا کیا،بلوچستان کے ستر فیصد علاقے میں گیس نہیں،فاٹا کے 22 سو،بلوچستان کے 2000گاؤں میں بجلی دستیاب نہیں،دو ماہ میں مہنگائی 7فیص سیزیادہ ہوئی،دھرنے کے معاملے پر ہم ہر وقت مسجد مسجداور مدرسے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں،اس کا ذمہ دار ضیا ئ ئ الحق کی پالیسز ہیں، ریاست نے دنیا بھر کے شدت پسندوں کا یہاں آباد کیا،حالیہ دھرنے میں اربوں کا نقصان ہوا،پختونوں نے پشاور سے چترال تک احتجاج کیا مگر ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا،فیض آباد کے دھرنے میں 18 دنوں تک پولیس مظاہرین کیسامنے جانے کی جرات نہ کر سکی،تین دن میں کیسے ختم کیا گیا بتایا جائے،کس لوگوں،حقیقی جمہوریت ہونی چاہیے،پارلیمنٹ کی بالادستی،آئین کی حکمرانی ہونی چاہئے،چین کا دورہ ناکام رہا،گوادر کی حالت 25سال بعد بھی نہ بدل سکی۔

سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ پی ٹی آئی تین سال تک کرپشن کا رونا روتے ہوئیاحتجاج کرتی رہی،ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملنے پر ان پیسوں کو ریکور کر کے ملک چلائیں گے،مفروضوں پر ملک نہیں چلتی،آپ کو سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے کام کا آغاز کرے،پچاس لاکھ گھر بنانے کا کااعلان کیا جبکہ ستر سالوں میں ساٹھ اکھگربنیں،ایک کروڑ نوکریاں کہاں سے دیں گے،اسٹاک ایکسچینج گربرہا ہے،عوام سبزی بھی خریدنے کی سقت کھو رہے ہیں،دوسری طرف سعودیہ اور چین سے قرضوں پر تالیاں بج رہی ہیں،اسد عمر نے شرائط پر ایوان کو اعتماد میں لینے کا کہا تھا،چین بے شک دوست ہیمگر قرضہ دینے والیممالک کیشرائط ہیں،گیس بلوچستان سینکلتے ہیں مگر وہاں گیس دستیاب نہیں،دھرنے میں جو کچھ باتیںکی گئی وہ صرف حکومت کیئلئے نہیں ریاست کیلئیبھی چیلنج ہے،ایک جھتہ پورے پوریاسلام آباد پر قابض ہو جاتا ہے،جن لوگوں نے وزیراعظم ،آرمی چیف اور ججز کے خلاف باتیں کیں،ریاست جب ایک جتھے سے مذاکرات کرتی ہے تو یہ خون خرابے سیزیادہ خطرناک ہے،جب ان کو ریاست خود پیسے دیں گیتو ان کو شے مل جاتے ہیں،جب ریاست کریمنل کو پالتے ہیں تو اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا،جب اسددرانی اور دلت ایک ساتھ بیٹھ کر وسکی پیتے ہیں تو ان سے کوئی نہیں پوچھتیلیکن جب سیاستدان تھوڑی سی بات کرتے ہیں تو غداری کے فتوے لگ جاتے ہیں،اسی کی دہائی میں امریکہ کی لڑائی کسی نے لڑی ہے تو مولیوں اور جرنیلوں نے لڑی ہے،حکومت خالی چور چور پر ٹائم ضائع نہ کرے کچھ کامبھی کرے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ریاست کا آئین عدلیہ اور فو ج نے نہیں بنایا اسے ملک کے عوامی نمائندوں نے بنایاہے انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے کیس پرسپریم کورٹ کے فیصلے پر سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کوئی بحث نہیں کی جس پر افسوس ہے وہ ایک مدبر اور بڑے وکیل بھی ہیں قانون کو سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے کیس میں پچیس سے تیس خواتین گواہ تھیں لیکن گواہی کے وقت کوئی بھی نہیں آئی اور کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے قانون کے مطابق کیا کیونکہ جو اس کے مدعی تھے وہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے سپریم کورٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اس کے فیصلے کو لازم ہے کہ سب قبول کریں اعظم سواتی کا خطاب جاری تھا کہ عثمان کاکڑ نے کورم کی نشاندہی کردی جس پر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات