فلسفہ اقبال سے دوری کے سبب ہم ایک قوم کی بجائے خود کو فرقوں‘ گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کرتے چلے جا رہے ہیں، ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا

جمعرات 8 نومبر 2018 23:39

فیصل آباد۔8 نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 نومبر2018ء) اس پرآشوب دور میں جب قومی مشاہیراور ہیروز کے بارے میں ہماری روزمرہ زندگی کے اوراق خالی ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ اس اثناء میں اُن عظیم ہستیوں کے فلسفے سے نئی نسل کو متعارف کرانے کیلئے ہمیں اقبال فہمی کی طرف بھرپور توجہ دینا ہوگی اور نئی نسل کو احساس دلانا ہوگا کہ اقبال کا شاہین بن کر وہ اپنی سیرت و بصیرت کے ذریعے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نئے اُفق تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ کامیابیوں کی نئی داستانیں رقم کریں۔

یوم اقبال پر اپنے خصوصی پیغام میں زرعی یونیورسٹی فیصل آبا دکے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہاہے کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبالؒ کا پیغام اساتذہ کے ذریعے نوجوانوں تک اس انداز سے پہنچایا جائے کہ وہ خود کو شاہین تصور کرتے ہوئے بلندپرواز ہونے کے ساتھ ساتھ ان صفات کو اپنانے کی کوشش کریں جو انہیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے باقی نوجوانوں سے ممتازکرتی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ فلسفہ اقبال سے دوری کے سبب ہم ایک قوم کی بجائے خود کو فرقوں‘ گروہوں اور گروپوں میں تقسیم کرتے چلے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک اپنی سمت کا تعین نہیں کر پائے۔ قرآن مجید کی آیات کہ ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی سے اجتناب کرو‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم کسی نہ کسی حوالے سے کسی گروہ ‘ ذات پات‘ برادری اور فرقے میں اُلجھے ہوئے ہیں یہ وابستگی ہمیں میرٹ‘ اصول پسندی‘ سچائی اور انصاف سے انحراف کی دلدل میں دھکیلتی چلی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبالؒ نوجوانوں سے کبھی مایوس نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ یہ توقع رکھی ہے کہ نئی نسل اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اللہ کی سرزمین پر خزانوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کے نئے آفاق تسخیر کریں گے اور حیرتیں تخلیق کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ اس دھرتی کے نوجوان جس کا خواب اقبالؒ نے دیکھا تھا اس کی عملی تصویر پیش کرتے ہوئے سبز ہلالی پرچم بلندیوں پر آویزاں کریں گے۔

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم وقت کی رفتار سے پیچھے تو نہیں رہ گئے ۔ ہم جہد مسلسل کی بجائے تن آسانی کی لعنت میں مبتلا تو نہیں ہوچکے کیونکہ وہ قومیں جو آسائشوں اور تن آسانیوں کے گرداب میں اُلجھ جاتی ہیں ان کو کبھی منزل میسر نہیں آیا کرتی۔

متعلقہ عنوان :