این آر او کیس ،ْکسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے ،ْسپریم کورٹ

درخواست گزار، نیب اور وفاق کو درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے جواب جمع کرانے کا حکم

جمعہ 9 نومبر 2018 18:05

این آر او کیس ،ْکسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے ،ْسپریم کورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کیس میں درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی، وفاق اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو درخواست قابل سماعت ہونے کے حوالے سے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔ جمعہ کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے این آر او کیس کی سماعت کی جس میں ملک قیوم کی جانب سے بیان حلفی عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے درخواست گزار فیروز شاہ گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بحث کریں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ابھی تک مکمل کاغذات فراہم نہیں کیے گئے۔

(جاری ہے)

فیروز شاہ گیلانی نے کہاکہ این آر او کسی فیصلے میں کہا گیا کہ سوئس بینکوں میں دولت پاکستانیوں کی ہے جبکہ باہر ساری دولت آصف زرداری لے گئے، انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کے پیر نے بھی کہا تھا کہ ان کے 6 کروڑ ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ساری اخباری باتیں ہیں اگر کوئی مواد موجود ہے تو بتائیں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آصف علی زرداری کے وکیل کہتے ہیں کہ ان کے موکل تمام مقدمات میں بری ہو چکے ہیں، کیا بریت کے بعد 184 (3) کے تحت دوبارہ مقدمہ کھولا جا سکتا ہے، آپ بتائیں دستاویزات کہاں پڑی ہیں ہم سنی سنائی باتوں پر فیصلہ نہیں کریں گے۔

اس موقع پر فیروز شاہ گیلانی نے کہا کہ یہ معلومات نیب نے فراہم کرنی ہیں کیونکہ معلومات مختلف ریفرنس میں پڑی ہیں، جس پر آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان کے موکل ایک طویل ٹرائل کے بعد بری ہوئے، 6 کروڑ ڈالر آصف زرداری کے نام پر نہیں تھے، وہ 8 سال جیل میں رہے، معاملہ ختم ہی نہیں ہو رہا۔انہوںنے کہا کہ مجھے آصف علی زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کے بیان حلفی مہیا کیے جائیں، اس کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر دلائل دوں گا۔عدالت نے درخواست گزار، نیب اور وفاق کو درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔