نوازشریف اور مریم نواز کی سزامعطلی سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف نیب کی اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور

فریقین کے وکلاء کو اپنے قانونی سوالات معروضات کی شکل میں پیش کرنے کی ہدایت، سماعت 12دسمبر تک ملتوی اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں کسی طرح کا تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں، انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا ہم وہ کریں گے اور فریقین کے وکلاء کی معروضات کا جائزہ لینے کے بعد لارجر بنچ کا فیصلہ کرینگے، چیف جسٹس ثاقب نثار

پیر 12 نومبر 2018 23:04

نوازشریف اور مریم نواز کی سزامعطلی سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی سزامعطلی سے متعلق ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف نیب کی اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرلی ہے اور فریقین کے وکلاء کو اٹھائے گئے اپنے قانونی سوالات معروضات کی شکل میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 12دسمبر تک ملتوی کردی اورقراردیا کہ عوام کو اداروں کے بارے میں بداعتمادی کی بیماری کو ذہن سے نکالنا اور سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا ہوگا، اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں تضاد ہے تواس معاملے میں لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے تاہم عدالت فریقین کے وکلاء کی معروضات کا جائزہ لینے کے بعدکیس کی سماعت کے لئے لارجر بینچ تشکیل دینے پرغور کرے گی۔

(جاری ہے)

پیرکوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم انصاف کے تقاضوں کے مطابق بہترین فیصلہ کریں گے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکل ہماری ا معاونت کریں اور اپنے قانونی سوالات معروضات کی شکل میں فوری طور پر عدالت میں جمع کرادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیر غور مقدمہ خصوصی قانون کے تحت دی گئی سزا کو معطل کرنے سے متعلق ہے اوراس حوالے سے اصول قانون یہ ہے کہ سزا معطل کرنے کے لئے مقدمے کے حقائق کو گہرائی میں نہیں دیکھا جاسکتا۔

درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کی سزائوں کی معطلی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیاکہ کہ ہائی کورٹ نے انسدادہشت گردی کی عدالت سے ملنی والی سزا معطل کی تھی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے سزا معطلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے فریقین سے تحریری دلائل مانگے تھے، بینچ کا متفقہ موقف یہ ہے کہ کیس کو باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں جمع کیا گیا میاں نواز شریف کا جواب کافی طویل ہے لیکن اس جواب میں اٹھائے گئے قانونی سوالات کو ترتیب نہیں دیا گیا۔ جس پر میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ انسداد دہشتگردی کے مقدمات میں بھی سزائیں معطل ہوئی ہیں اور عدالت عظمی نے سزائیں منسوخ نہیں کی تھیں۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ میرے ذہن میں تین بنیادی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ دہشتگردی کا مقدمہ فوجداری کیس ہوتا ہے جبکہ موجودہ کیس نیب قانون سے متعلق تھا، اصل سوال ضمانت نہیں سزا معطلی کا ہے، عدالت نے اس امر کو دیکھنا ہے کن حالات میں سزا معطل ہو سکتی ہے، کیا سزا معطلی میں شواہد کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ جائزہ بھی لیں گے کہ کیا ہائی کورٹ نے شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں میں کسی طرح کا تضاد ہے تو لارجر بینچ بھی بن سکتا ہے لیکن لارجر بینچ کے حوالے سے فریقین کے وکلا معاونت کریں، انصاف کے تقاضوں کے مطابق جو بہترین فیصلہ ہوا ہم وہ کریں گے اور فریقین کے وکلاء کی معروضات کا جائزہ لینے کے بعد لارجر بنچ کا فیصلہ کرینگے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کاکہنا ہے جب خواجہ حارث پیش ہوتے ہیں تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سزائے موت کے مقدمات میں بھی سزا معطل ہو سکتی ہے، سزا معطلی پر سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں۔ جس پرچیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیاکہ کیا آپ جسٹس کھوسہ کے فیصلے پر انحصار کر رہے ہیں، لیکن اگر اعتراض نہ ہو تو جسٹس کھوسہ کو بھی بینچ کا حصہ بنا لیں۔ ہمیں سپریم کورٹ پر اعتماد کرنے کے ساتھ بد اعتمادی کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا، آج ہی نیب اور فریقین قانونی نکات پر اپنے تحریری معروضات پیش کریں، جس کا جا ئزہ لے کر لارجر بینچ کا فیصلہ کیا جائے گا۔