انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے عزت ، اسے احسن طریقے سے نبھاتے ہیں، چیف جسٹس

ذمہ داری کو صاف شفاف طریقے سے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر نبھانا ہے،معزز جج صاحبان نے اپنی خدمات سے اس ادارہ کی عزت کو بڑھایا،اللہ نے اپنی مخلوق کو کام سونپا ہے کہ ناانصافی کے خلاف کھڑے ہوںمیرے معزز ججوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،انصاف کو قائم رکھنے کا وزن کیا ہوتا ہے یہ میں جانتا ہوں،انصاف کی فراہمی بڑی عزت کی بات ہے،جسٹس ثاقب نثار کا تعزیتی ریفرنس سے خطاب

پیر 12 نومبر 2018 23:29

انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے عزت ، اسے احسن طریقے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 نومبر2018ء) سپریم کورٹ میں جسٹس سعید الزمان صدیقی، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس چوہدری اعجاز احمد اور جسٹس میاں برہان الدین کے لیے بلائے گئے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری اللہ تعالی کی طرف سے عزت ہے،اللہ تعالی کے طرف سے ملنے والی اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہیں،اس ذمہ داری کو صاف شفاف طریقے سے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر نبھانا ہے،معزز جج صاحبان نے اپنی خدمات سے اس ادارہ کی عزت کو بڑھایا،اللہ نے اپنی مخلوق کو کام سونپا ہے کہ ناانصافی کے خلاف کھڑے ہوںمیرے معزز ججوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،انصاف کو قائم رکھنے کا وزن کیا ہوتا ہے یہ میں جانتا ہوں،انصاف کی فراہمی بڑی عزت کی بات ہے۔

(جاری ہے)

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارجی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے کہا کہ جسٹس سعید الزمان نے سول قانون کے بارے میں معرکتہ الارائ فیصلے دیئے، جسٹس سعید الزمان 1938 کو لکھنو میں پیدا ہوئے، 1980 میں سندھ ہائیکورٹ اور 1992 میں سپریم کورٹ کے جج بنے، انہوں نے بہادری سے عدلیہ کی آزادی کے لیئے کام کیا،الجہاد ٹرسٹ کیس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس کیس میں ججوں کی تقرری سے انتظامیہ کا کردار ختم کیا گیا،انہوں نے بلغاریہ میں مسلمان اقلیتوں کے فیصلے بھی کئے،جسٹس جاوید اقبال مفکر پاکستان علامہ اقبال کے بیٹے تھیجو1982 میں ہائیکورٹ اور 1986 میں سپریم کورٹ کے جج بنے،انھوں نے عام آدمی کے تحفظ کے لیے کام کیا،جسٹس جاوید اقبال نے فلسفے اور اردو زبان پر بھی کام کیا،انھوں نے اقام متحد میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی،انہیں حلال امتیاز سے نوازا گیا،جسٹس چوہدری اعجاز احمد 1997 میں لاہور ہائیکورٹ اور 2005 میں سپریم کورٹ کے جج بنے،جسٹس اعجاز ایک جج کی زمہ دارویوں پر زور دیتے تھے،وہ عدالتی نظام میں اقدار کی بات کرتے تھے،انھوں نے نئے تقرر شدہ ججوں کے لیے ہدایت پر مبنی مکالمہ لکھا،جسٹس میاں برہان الدین 1975 میں پشاور ہائیکورٹ اور 1981 میں سپریم کورٹ کے جج بنے،جسٹس میاں برہان الدین اپنی ذہانت کے لیے جانے جاتے تھے،ان کے فیصلے بہت واضع اور غیر مبہم ہوتے تھے۔

تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیرمین کامران مرتضینے کہا کہ دنیا فانی ہے موت سے کسی کو استثنی حاصل نہیں،چاروں معزز جج صاحبان کی انصاف کی فراہمی عدالتی اور قانونی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،بینچ اینڈ بار عدالتی نظام کا لازم و ملزوم حصہ ہیں،چاروں ججز اپنے عدالتی کیرئیر میں غیر جانبدار اور ایماندار رہے،معزز جج صاحبان نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا،معزز جج صاحبان آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے حمایتی تھے،دنیا میں قیام عارضی ہے جلد یا بدیر جانا سب کو ہے،اللہ مرحوم ججز کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

اس موقع پر ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانینے کہا کہ ہم آج یہاں اعلی عدلیہ کے چار مرحوم ججز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں،معزز ججز نے فراہمی انصاف میں کوئی کسر روا نہیں رکھی،معزز ججز کی عدالتی اور قانونی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،خدا تعالی معزز جج صاحبان کی مغفرت فرمائے۔۔توصیف