سپریم کورٹ نے راولپنڈی میں بحریہ ٹاون کی جانب سے سرکاری اراضی پرقبضہ کے حوالے سے کیس کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے دائر درخواست کی سماعت3 دسمبر تک ملتوی کردی

منگل 13 نومبر 2018 23:37

سپریم کورٹ نے راولپنڈی میں بحریہ ٹاون کی جانب سے سرکاری اراضی پرقبضہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے راولپنڈی میں بحریہ ٹاون کی جانب سے سرکاری اراضی پرقبضہ کے حوالے سے کیس کے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے دائر درخواست کی سماعت3 دسمبر تک ملتوی کردی ہے اورکہا ہے کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نے حد بندی کے معاملے میں کیوں مداخلت کی اورکس اختیار کے تحت منظوری دی، اگر ایک انچ زمین بھی غیرقانونی ثابت ہو گئی تو نہیں چھوڑیں گے۔

منگل کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مشیرعالم ، جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس فیصل عرب پرمشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ بحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ریکارڈ کے مطابق جنگلات کی 1741 ایکڑ اراضی بحریہ ٹاون کو وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد دی گئی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے حیرانی کااظہا رکیا اورکہا کہ وزیر اعلیٰ کیسے اس معاملے کی منظوری دے سکتا ہے، انہوں نے کس اختیار کے تحت اس معاملے میں مداخلت کی، عدالت کوبتایا جائے، وزیر اعلیٰ کا تو کوئی کردار نہیں، اس معاملے میں انہوں نے کیسے منظوری دی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعلٰی نے جس اراضی کی حد بندی کی منظوری دی اس میں سے 270 کنال اراضی وزیر اعلٰیٰ کے خاندان کے مختلف لوگوں کو دے دی گئی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے بحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن سے استفسارکیا کہ کیا یہ نیب ریفرنس کا فٹ کیس نہیں بنتا، سوال یہ ہے کہ بڑے بڑے لوگ چھوٹی باتوں میں دخل دے کر بڑے بڑے فائدے لے لیتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ تمام چوہدری خاندان کو نوٹسز جاری کر دیتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے کہا کہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کس طرح زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، یہاں تویہ طریقہ ہے کہ چند کنال زمین خرید کر کئی ایکڑ شاملات لپیٹ لی جاتی ہے۔ اعتزاز احسن نے فاضل عدالت سے کہا کہ آپ کئی چیزیں پہلے اخذ کر کے رائے بنا لتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل میں رائے اخذ کر لیتا ہوں کیونکہ یہاں ہر چیز عیاں ہوتی ہے، لیکن میںایک بات واضح کر دوں کہ اگر کوئی بھی چیز غیر قانونی ثابت ہو گئی تو ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑیںگے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ میں بخشوانے کیلئے آیا بھی نہیں ہوں، میرا کہنا یہ ہے کہ تخت پڑی کی اراضی 2210 ایکڑ نہیں بلکہ 1741 ایکڑ ہے 1956-57 کے ریونیو ریکارڈ میںیہی رقبہ لکھا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ اگررقبہ1741 ایکڑ ہے تومیں ٹھیک ہوں اوراگر 2210 ایکڑ ہو تومیں غلط ثابت ہوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایک انچ زمین پر قبضہ برداشت نہیں کرے گی، ہم لوگوں کو مار کر یا چھین کر زمین پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ حد بندی کی منظوری سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے دی تھی، جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال پر نیب ریفرنس بنتا ہے، یہاں بڑے بڑے لوگوں نے فائدے اٹھائے، لیکن اب بڑی وضاحتیں دی جارہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ہم چوہدری برادران کے اہل خانہ کو نوٹس دے دیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 280 کنال اراضی چوہدری پرویز الہی کے خاندان کے افراد کو الاٹ کی گئی، جن میں چوہدری شجاعت کی بیٹی بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملک ریاض نے چوہدری پرویز الہی کے اہل خانہ کو زمین الاٹ کی تھی، امریکی صدر کو واشنگٹن میں ایک کھوکھا الاٹ کرنے کا بھی اختیار نہیں لیکن یہاں لوگ کیا کچھ کرلیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ملک ریاض کی روسٹرم پر موجودگی پرِ برہمی کااظہا ر کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، یہاں آپ کی حیثیت ایک عام سائل جیسی ہے، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ عدالتی کارروائی میں مداخلت پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتے ہیں، اب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی، آپ ہمیشہ عد التی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، ہمیں بتادیں اگر آپ کواپنے وکیل پر بھروسہ نہیں ہے تو یہاںخود آکر دلائل دیں۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ پہلے 270 کنال اراضی چوہدری منیر کو الاٹ کی گئی۔ جسٹس آصف سعید کاکہنا تھا کہ جب ہم بحریہ ٹان کراچی کا کیس سن رہے تھے تو کہا گیا کہ بحریہ ٹائون بنا تو غیر قانونی ہے مگر ہے بڑا عالیشان، جنگلات کیس میں کہا جارہا ہے دس ہزار درخت کاٹے گئے لیکن جنگل میں منگل کردیا گیا۔آپ اس دور کی بات کررہے ہیں جب قانون گھر کی لونڈی ہوا کرتی تھی، لیکن آج وہ وقت نہیں بلکہ وقت بدل چکاہے، میں حیران ہوں کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود لوگ آزا د گھوم رہے ہیں،اس طرف نہ جائیں۔ بعدازاں مزید سماعت تین دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔