مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے لائن آف کنٹرول کو بھارت اور پاکستان کے مابین مستقل سرحدتسلیم کرنے کا آپشن کبھی زیر غور نہیں رہا، کشمیری عوام ریاست جموںو کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہیں اور تقسیم کشمیر اُن قربانیوں کی نفی ہوگی، صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان کا انٹرویو

بدھ 14 نومبر 2018 17:13

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2018ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے لائن آف کنٹرول کو بھارت اور پاکستان کے مابین مستقل سرحدتسلیم کرنے کا آپشن کبھی زیر غور نہیں رہا، کشمیری عوام ریاست جموںو کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہیں اور تقسیم کشمیر اُن قربانیوں کی نفی ہوگی جو ریاست جموںو کشمیر کے عوام گذشتہ ستر سال سے دیتے چلے آرہے ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلوبل ویلیج سپیس میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ جموںو کشمیر کے عوام کی جدوجہد حق خودارادیت کے حصول کیلئے ہے اور وہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھارتی غلامی سے نجات حاصل کر نے کے لئے پیش کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ محبت اور یکجہتی کی ایک نئی لہر نمودار ہوئی جس کا اظہار مقبوضہ وادی کے گلی کوچوں اور سٹرکوں پر ہزاروں اور لاکھوں لوگ اُس وقت کرتے ہیں جب وہ شہیدوں کے جسد خاکی کو کندھا دینے یا اُن کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے نکلتے ہیں تو اُن کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ ’’ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ اہل پاکستان کیلئے ایک ملفوف پیغام ہے کہ اپنے جسم کے حصے کو اغیار اور ظالم کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور اس سلسلے میں سفارتی اور سیاسی مہم کو تیز تر کریں ۔

انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنا قالین کے نیچے جھاڑو پھیرنے کی کوشش تو ہوسکتی ہے لیکن اسے مسئلہ کشمیر کا حل نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر گفت و شنید کا آغاز نہیں کرتا اسے کوئی یکطرفہ رعایت نہیں دی جاسکتی ۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے جموں وکشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کیلئے پیش کئے گئے۔

چار نکاتی فارمولے پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ غالباً یہ فارمولہ پاکستان ، بھارت اور ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے مابین اعتماد سازی کے لئے ’’جہاں ہے جیسا ہے‘‘ کی پوزیشن قائم رکھنے کی کوشش تھی۔ انہوں نے کہا کہ بند دروازوں کے پیچھے اور عوامی نظروں سے اوجل جن فارمولوں اور اصولوں کو طے کیا جاتا ہے وہ قابل عمل ہونے کے باوجود عوامی تائید کے تابع ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر ، گلگت ، بلتستان اور مقبوضہ کشمیرسے فوجوں کا بتدریج انخلاء بظاہر قابل عمل نہیں لگتا اسی طرح لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کئے بغیر دونوں جانب کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر ریاست کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے جانے کی آزادی ایک عارضی ریلیف تو ہوسکتا ہے لیکن یہ مسئلہ کشمیر کا مستقل اور پائیدار حل نہیں ہے ۔

انہوں نے اسی طرح بھارت اور پاکستان کے جائنٹ میکنزم کے تحت کشمیریوں کو آزادانہ حق حکمرانی کا معاملہ نہایت ہی پیچیدہ اور پر خطر ہے۔ اس فارمولے کو حتمی شکل دینے سے پہلے پاکستان اور کشمیر کے سیاسی حلقوں میں سے کچھ لوگوں کو اعتماد میں لیا گیا اور باقی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اگر یہ فارمولہ مکمل شکل میں عوام کے سامنے آجاتا تو اس سے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی تھی۔ اس فارمولے کے بارے میں بہت سی باتیں قیاس آرائیوں اور مفروضوں پر بھی مبنی ہیں۔