سپریم کورٹ، سندھ کی سرکاری اراضی بحریہ ٹائون کو منتقل کرنے کے حوالے سے عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی

بدھ 14 نومبر 2018 23:56

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے سندھ کی سرکاری اراضی بحریہ ٹائون کو منتقل کرنے کے حوالے سے عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو نیب کے ساتھ تعاون کی ہدایت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ عدم تعاون پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بدھ کو جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹائون کے حوالے سے جو بھی درخواستیں آئی ہیں وہ ہمیں دکھائی جائیں، نیب نے جو بھی ریفرنس دائر کرنا ہے یہ اسی کا کام ہے، عدالت نے صرف فیصلے پر عملدرآمد کروانا ہے۔

(جاری ہے)

عدالت کوبحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن نے پیش ہوکر بتایا کہ عدالت نے نظر ثانی کی درخواست خارج کرتے ہو ئے نیب کو آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن خدشہ ہے کہ نیب عدالتی آبزرویشنز سے متاثر ہوگی، جس پرعدالت نے نیب کوہدایت کی کہ وہ عدالتی آبزرویشنز سے بالا تر ہو کر تحقیقات کرے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹائون کی جانب سے عدالتی فیصلے پرنظرثانی کیلئے دائر درخواست کے حوالے سے کہا کہ ہم نے اس معاملے میںنیب کی پیش رفت دیکھ لی ہے، نیب کوشکایت ہے کہ سندھ حکومت تعاون نہیں کررہی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہمیںنیب درخواست کے منظر عام پر آنے پر اعتراض نہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے واضح کیا کہ عدالتی فیصلے کے تحت نئی خریدو فروخت پر پہلے ہی پابندی عائد ہے، اب اگر بحریہ ٹائون نے پلاٹ فروخت کئے تو یہ عدالت کی حکم عدولی ہو گی۔

جسٹس عظمت سعید کاکہناتھا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی ہو گی۔ عدالت کوبحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نظر ثانی سے پہلے قسطیں جمع کرانے کا حکم تبدیل کیا تھا، حالانکہ ہم نے پانچ ارب روپے کی رقم بطور گارنٹی جمع کرادی ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نظر ثانی کی اپیل خارج ہونے کے بعد عدالت کا عبوری حکم ختم ہو گیا جس کے بعد اقساط کی سو فیصد رقم جمع کرانا ہو گی۔

بحریہ ٹائون کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے گارنٹی کے طورپانچ ارب روپے جمع کرائے ہیں، استدعاہے کہ وہ رقم واپس کی جائے، جس پر عدا لت نے کہا کہ عبوری فیصلے کے بعد جو رقم بحریہ نے لی ہے ہم گارنٹی کے وہ 5 ارب اس کے بدلے میں رکھیں گے، اگر پیسہ خرچ ہو چکا ہے تو اس کاحساب دیا جائے کیونکہ عدالتی فیصلے میں از سر نو زمین کے تبادلے کا حکم دیا گیا ہے، اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ سندھ حکومت زمین کا تبادلہ کرنے پرتیارہے یا نہیں، بس مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی زمین کا تبادلہ ہو گا، 2014ء والی قیمت کسی صورت مقرر نہیں کر سکتے، رواں سال ختم ہونے سے پہلے فیصلے پر عمل کرائیں گے، اس کے ساتھ عدالت بحریہ ٹائون کے رہائشیوں کے مفاد کا ہر صورت تحفظ کرے گی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ بحریہ ٹائون کو الاٹیز سے ملنے والی تمام اقساط کی رقم سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں جمع کرائی جائیں ،بحریہ ٹائون کو وصول کی جانیوالی 80 فیصد اقساط کی رقم خرچ کرنے کا ریکارڈ عدالت میں جمع کرا نے کے ساتھ عدالتی فیصلے کے بعد خریدوفروخت نہ کرنے کا بیان حلفی بھی دیناہوگا۔ بعدازاں عدالت نے بحریہ ٹائون کراچی کو مزید اشتہارات جاری کرنے سے روکتے ہوئے قرار دیا کہ تیسرے فریق کے حق کو مدنظر رکھا جائے گا۔ مزید سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔