Live Updates

نواز شریف نے احتساب عدالت میں قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کردیا

سابق وزیر اعظم نے مزید 44 سوالات کے جواب جمع کروا دیئے ،ْمجموعی طور پر 151 سوالات کے جواب دینے ہیں یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا ،ْ میرے والد نے پیسوں کا انتظام کیا ،ْ خاندان کے افراد کی ضروریات کو پورا کیا ،ْسابق وزیر اعظم مارشل لاء کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجنسیوں نے غیرقانونی تحویل میں لے لیا،الگ کہانی ہے ،ْ موقع ملاتو بتائینگے ،ْجے آئی ٹی رپورٹ کوئی قابل قبول شہادت نہیں، اس کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے ،ْ نوازشریف کا بیان

جمعرات 15 نومبر 2018 21:32

نواز شریف نے احتساب عدالت میں قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2018ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب عدالت میں قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو مجموعی طور پر 151 سوالات کے جواب دینے ہیں۔

انہوں نے گزشتہ روز 45 سوالات کے تحریری جواب دیئے تھے جب کہ جمعرات کو مزید 44 سوالات کے جواب جمع کروا دیئے۔سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ لوگ ان سے تعزیت کیلئے آرہے ہیں، بذریعہ سڑک انہیں لاہور بھی جانا ہے جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ جتنا بیان ان کا مکمل ہوجائے گا اتنے پر دستخط کروالیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

العزیزیہ ریفرنس میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے اپنا بیان شروع کیا اور عدالت کو بتایا کہ یہ بات سب کو معلوم کہ مجھے، اہلیہ اور بچوں کے ساتھ دسمبر 2000 میں جلا وطن کردیا گیا تھا اور ہمیں 2007تک بیرون ملک رہنے پر مجبور کیا گیا، 1999 کے مارشل لاء کے بعد ہمارے کاروبار کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا اور اس حوالے سے شکایت بھی درج کرائی لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ہمارے ساتھ یہ صرف 1999 میں نہیں ہوا، یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ہمارے خاندان کی درد بھری کہانی ہے۔فاضل جج نے استفسار کیا کہ جب یہاں سے گئے تو آپ کی جیب خالی تھی ،ْاکاؤنٹس منجمد کر دیئے گئے تھے۔ سابق وزیر اعظم نے اپنے جواب میں کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے قبل 2 جنوری 1972 میں بھی ایسا ہو چکا تھا، ہماری اتفاق فاؤنڈری کوقومیا لیا گیا تھا، اتفاق فائونڈری کے بدلے کوئی کمپنسیشن بھی نہیں دی گئی۔

یہ کہنا درست نہیں کہ سعودی عرب میں ہمارے پاس وسائل یا پیسہ نہیں تھا ، حقیقت یہ ہے کہ میرے والد نے پیسوں کا انتظام کیا اور خاندان کے افراد کی ضروریات کو پورا کیا۔نواز شریف نے کہا کہ میں نے گلف اسٹیل کے بینیفشل ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا، 1980 کے معاہدے سے میرا کوئی تعلق نہیں، نہ میری موجودگی میں تیار ہوا، معاہدے میں جس شخص نے حصہ لیا اس کو بطور گواہ پیش نہیں کیا گیا، شہباز شریف اور طارق شفیع کو جے آئی ٹی نے شامل تفتیش کیا لیکن اس کیس میں وہ گواہ نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نے کہا کہ 1999 کے مارشل لاء کی الگ کہانی ہے، موقع ملا تو بتائیں گے، مارشل لاء کے بعد شریف خاندان کے کاروبار کا تمام ریکارڈ ایجنسیوں نے غیرقانونی تحویل میں لے لیا، ریکارڈ اٹھائے جانے کیخلاف متعلقہ تھانے میں شکایت درج کرائی گئی لیکن متعلقہ تھانے کی طرف سے ہماری شکایت پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، میری جلاوطنی کے دنوں میں نیب نے غیر قانونی طریقے سے ہماری خاندانی رہائش گاہ کو تحویل میں لے لیا، نیب نے صبیحہ عباس اور شہباز شریف کے نام جائیداد کے کاغذات بھی قبضے میں لیے، رمضان شوگر ملز اور چوہدری شوگر ملز کو مذموم مقاصد کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ،ْچوہدری شوگر ملز سے 110ملین اور رمضان شوگر ملز 5ملین روپے نکلوا لیے گئے، نکلوائی گئی رقم واپس نہیں کی گئی۔

جلاوطنی کے بعد واپسی پر نیب کے اقدامات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ، لاہور ہائیکورٹ نے نیب کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا۔سابق و زیر اعظم نوازشریف نے سوالات کے جواب میں کہا کہ ریکارڈ پر ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ مختصر نام ہے ،ْ اس کا پورا نام ہل انڈسٹری فارمیٹل اسٹیبلشمنٹ ہے، جے آئی ٹی رپورٹ کوئی قابل قبول شہادت نہیں، اس کے دس والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی کسی دستاویز کا میں گواہ نہیں جو میں نے خود جے آئی ٹی کو فراہم کیا تھا۔

میرے خلاف شواہد میں ایم ایل ایز پیش کئے گئے ، سعودی عرب سے ایم ایل اے کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا، یو اے ای سے آنے والا ایم ایل اے کا جواب درست مواد پر مبنی نہیں،حسن نواز کا انٹرویو اور متفرق درخواستیں بطور شہادت نہیں پڑھی جاسکتیں۔ سابق وزیر اعظم نے قطری شہزادے شیخ حمد بن جاسم الثانی کے خطوط کے حوالے سے کہا کہ ان سے میرا کوئی تعلق نہیں، کسی حیثیت میں کسی بھی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا۔سماعت کے دور ان سابق وزیر اعظم نوازشریف نے واجد ضیاء کے بیانات پر بھی اعتراضات اٹھائے اور کمرہ عدالت میں اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرتے رہے۔بعد ازاں نواز شریف کے بیان ریکارڈ کروانے کے بعد ان کے تحریری جوابات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا گیا۔
Live وزیراعظم شہباز شریف سے متعلق تازہ ترین معلومات