افغانستان میں طالبان کا حملہ ،30 پولیس اہلکار ہلاک،فضائی حملے میں 17جنگجوبھی مارے گئے

متعددطالبان بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے،غزنی کے رکنِ اسمبلی محمد عارف کی گفتگو

جمعہ 16 نومبر 2018 14:50

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 نومبر2018ء) افغانستان کے صوبے فارا میں طالبان کی جانب سے کیے گئے ہولناک حملے کے نتیجے میں افغان پولیس کے 30 اہلکار ہلاک ہوگئے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہی پورے ملک میں حکومتی اداروں، تنصیبات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

خیال رہے کہ طالبان گزشتہ کچھ عرصے میں ایک مرتبہ پھر منظم ہو کر آدھے سے زیادہ افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں تاہم انہوں نے حالیہ حملے کے حوالے سے کوئی موقف نہیں دیا۔حملے اس قدر تسلسل سے جاری ہیں کہ انتظامیہ باقاعدہ بنیادوں پر زخمی اور ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر ہے تاہم غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 45 کے قریب افغان پولیس اہلکار اور فوجی روزانہ کی بنیادپر ہلاک اور زخمی کیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبائی کونسل ممبر داداللہ قانی کے مطابق رات گئے فارا کے ضلع خاکی سفید میں ہونے والے حملہ بدھ کی رات شروع ہوااور 4 گھنٹوں تک جاری رہا۔کابل کے رکنِ اسمبلی سمیع اللہ شمیم کا کہنا تھا کہ طالبان نے چوکیوں پر مامور تمام 30 پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا جس میں ضلعی پولیس کمانڈر بھی شامل ہیں۔رد عمل کے طور پر کیے گئے فضائی حملے میں 17 جنگجو مارے گئے اس کے باوجود وہ بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود کے ہمراہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

غزنی کے رکنِ اسمبلی محمد عارف کا کہنا تھا کہ افغان صوبے غزنی کے 2 ضلعوں میں طالبان کے ساتھ جاری گھمسان کی لڑائی کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں جس میں اکثریت ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہے۔اس کے علاوہ افغان پولیس ،مقامی پولیس، ملیشیاء کے اہلکار اور فوجیوں سمیت تقریباً 100 اہلکار ہولناک تصادم میں مارے جاچکے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت افغان سیکیورٹی فورسز ملک کے 34 میں سے 22 صوبوں میں برسرِ پیکار ہیں۔

خیال رہے کہ افغان جنگ شہریوں کے لیے انتہائی ہولناک ہوتی جارہی ہے، اقوامِ متحدہ کی رواں سال پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 2018 کے ابتدائی 6 ماہ میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد 2009 سے اب تک کسی بھی ایک سال میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد سے زیادہ ہے جب سے اقوامِ متحدہ نے شہری ہلاکتوں کے اعداد و شمار اکھٹے کرنے شروع کیے ہیں۔افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار نیٹ ورک کا کہنا تھا کہ 2018 کے ابتدائی 6 ماہ میں روزانہ اوسطاً 2 بچوں سمیت 9 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

ملک میں چوکیوں پر تعینات سیکیورٹی فورسز کو اسلحے ، گولہ بارود سمیت خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے جس کے لیے انہوں نے حکومت کو ذمہ دار ٹہرایا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تجربہ کار جرنیلوں کے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی جگہ غیر تجربہ کار افراد نے لے لی ہے جبکہ فوج میں بھرتیوں کی بھی صورتحال خاصی خراب ہے، جہاں سے 4 سو سے 6 سو افراد بھرتی ہونے چاہیے وہاں صرف 100 سے 2 سو افراد بھرتی ہوتے ہیںکوئی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔