فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس؛ وفاقی حکومت کی عد م دلچسپی پر عدالت کا اظہار برہمی

حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو بتا دیں اسے دفن کر دیں ، بتایا جائے کہ پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے یا اسے ہجوم نے چلانا ہے ،جسٹس فائز عیسیٰ کے ریمارکس

جمعہ 16 نومبر 2018 16:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 نومبر2018ء) سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی عد م دلچسپی پر عدالت برہم ، جسٹس فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت اس کیس کو نہیں چلانا چاہتی تو بتا دیں اسے دفن کر دیں ۔ بتایا جائے کہ پاکستان کو فعال ریاست بنانا ہے یا اسے ہجوم نے چلانا ہے ۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس فائز عیسٰی پر مبنی دو رکنی بنچ نے کی ۔

د وران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل موجود نہیں ہیں ۔کیس کی سماعت ملتوی ہو جائے جس پر جسٹس فائز عیسٰی برہم ہوئے اور کہا کہ پاکستان بند ہو گیا اس سے اہم کیس کیا ہو سکتا ہے ۔ یہ مذاق نہیں اٹارنی جنرل کو تنخواہ کون دیتا ہے ۔

(جاری ہے)

عوام کے ٹیکس سے انہیں تنخواہ ملتی ہے ٹیکس سے تنخواہ ملتی ہے تو وہ جواب دہ ہیں ۔

بتا دیں پاکستان کو قانون کے ذریعے چلانا ہے یا سٹریٹ پاور سے ، جسٹس فائز عیسٰی نے چیئرمین پیمرا کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کے ردعمل میں کہا کہ عدالت جو بھی سوال اٹھاتی ہے آپ کے پاس ا کا جواب نہیں ۔ کیا پیمرا نے اس حوالے سے نیوز چینلز کے لئے کوئی ایڈوائزری جاری کی تھی ۔ چیئرمین پیمرا بیورو کریٹ ہیں یا میڈیا پرسن، کیا چیئرمین پیمرا ٹیکس دینے والی عوام کو جواب دہ ہیں ۔

کیا آپ نے آرٹیکل 5 پڑھا ہے ۔ پیمرا کا بجٹ کتنا ہے ۔ پیمرا قانون پر عمل نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے ، کیا پیمرا کو اپنے قانون پر عمل کرانا پسند نہیں ۔ کیبل آپریٹر کے لائسنس معطل کیوں نہیں ہوئے ابھی تک کوئی شکایت کرے تو پیمرا واپس لینے کے لئے اس کے ہاتھ مروڑتا ہے ۔ پیمرا کو قانون کی فکر نہیں ۔ آرٹیکل 19 کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔ جو جلائو گھیرائو کرے اس کو کوریج ملتی ہے ۔

عدالت کے کسی سوال کا جواب نہیں ملا ۔ امید ہے کہ عدالت کو سوالوں کے جواب کے لئے جرح کرنا پڑ رہی ہے ۔ چیئرمین پیمرا سلیم بیگ نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ وہ پہلے بیورو کریٹ تھے اب میڈیا ریگولیٹری تھارٹی کے چیئرمین ہیں انہوں نے 30 سال سے زائد سول سروسز میں گزارے ، پیمرا کا بجٹ ا یک ارب روپے ہے ۔ چینلز کو شوکاز نوٹسسز اور 50 ہزار فی کس جرمانے کئے گئے ہیں ۔

ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کونسل آف کمپلینٹ کرتی ہے جسٹس فائز عیسٰی بولے کہ بچوں والے بات نہ کریں ۔افسوس ملک کا کوئی ادارہ ٹھیک طرح کام نہیں کر رہا ۔ کسی کو ملک کے مستقبل کی فکر نہیں ۔ ہر ایک کی یہی سوچ ہے ہمیں نوکری مل گئی دو چار اپنے لوگ لگا لو بس ، باقی معاملات پر مٹی پاؤ ، ہم اس ملک کے ٹیکس ادار کرنے والوں کو کیا دے رہے ہیں ۔ سکولوں میں بم پھٹ جائے تو دیواریں اونچی کروا دو ۔

بتائیں دنیا کے کس ملک میں ایسے مسئلے حل ہوتے ہیں کتنے دن فیض آباد دھرنے کی وجہ سے مکملبند رہا ۔ پیمرا والے اصلی طاقت سے ڈرتے ہیںان کو آئین سے ڈرنا چاہئے ۔ آئی ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ کس کے بنک کی تفصیلات نہیں معلوم کر سکتے ۔ 22 دن ملک بند رہا اربوں روپے کا نقصان کیا گیا ۔ وزارت دفاع واؒلے کہہ رہے ہیں یہ ان کا کام ہی نہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ خادم رضوی اور پیرافضل قادری کرپٹ ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس قسم کے کرپٹ ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ذرائع آمدن کے بارے میں نہیں جانتے ان کے انکم ٹیکس کے بارے میں بھی نہیں جانتے اگر اب نہیں بتا سکتے تو ہم آئی بی اور پولیس سے پوچھ لیں گے ۔

آئی ایس آئی کس قانون کے تحت چلتی ہے کیا آئی ایس آئی کسی کا بنک اکاؤنٹ تک معلوم نہیں کر سکتی ۔ اگر آئی ایس آئی کا یہ کام نہیں تو پھر کہہ دہتے ہیں گھر جائیں اور جب آئی ایس آئی دوسرے کاموں میں مداخلت کرے گی تو پوچھیں گے کیا یہ آئی ایس آئی کا کام ہے ۔ وزارت دفاع کے افسر بریگڈیئر فلک ناز نے اس موقع پر عدالت میں موقف اختیار کیا کہ عدالت حکم دے تو ایجنسی کو معلومات لینے کا کہہ دیتے ہیں ۔ آئی ایس آئی نیشنل سکیورٹی کو دیکھتی ہے عدالت نے تمام متعلقہ اداروں کو فیض آباد دھرنا کے حوالے سے فریش رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت جمعرات 22 نومبر تک ملتوی کر دی ہے ۔ ۔