سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں پیمرا ، الیکشن کمیشن اور دیگر رپورٹس کو مستردکردیا،

نئی رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، سیکرٹریالیکشن کمیشن، سیکرٹری داخلہ اور دیگر متعلقہ حکام اپنی حاضری کو یقینی بنائیں، دھرنے کے دوران پورا ملک بند ہوگیا تھا، اب ہمیںبطور قوم پختگی دکھا نا ہوگی، عدالت

جمعہ 16 نومبر 2018 23:30

اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 نومبر2018ء) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں پیمرا ، الیکشن کمیشن اور دیگر رپورٹس کو مستردکرتے ہوئے نئی رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی ہے اور مزید سماعت 22 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت پراٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، الیکشن کمیشن و وزارت داخلہ کے سیکرٹری اور دیگر متعلقہ حکام اپنی حاضری کو یقینی بنائیں، دھرنے کے دوران پورا ملک بند ہوگیا تھا، اب ہمیںبطور قوم پختگی دکھا نا ہوگی۔

جمعہ کو جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے دھرنے کے حوالے سے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیاہے، عدالت کو یہ بھی بتایا جائے کہ کیا دھرنے کے دوران پیمرانے نیوز چینلز کو کوئی ایڈوائزری جاری کی تھی اورکیا آپ عوام کوجوابدہ ہیں جو ٹیکس اداکرتے ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان کہاں ہیں وہ ابھی تک نہیں آئے ۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کو چیف جسٹس نے لاہور آنے کی ہدایت کی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ یہ اہم ترین کیس تھا جس میں پورا پاکستان بند ہوگیا تھا، کیا لاہور میں اس سے زیادہ اہم کیس تھا، آج کی تاریخ تو ان کی خواہش پر مقرر کی گئی تھی۔

ہمیں بتایا جائے کہ پیمرا نے دھرنے کے دوران ٹی وی چینل کے اقداما ت کے حوالے سے کوئی ایکشن لیا تھا، چینلز کو شوکاز نوٹسز دیئے گئے یا کسی چیلن کو جرمانہ کیا گیا ہے، ہمیں اس با رے میں ثبوت دکھائے جائیں۔ چیئرمن پیمرا نے بتایا کہ ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کونسل آف کمپلینٹ کرتی ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ اگر پیمرا قانون پر عمل نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، بتا دیا جائے،کیا پیمرا کو اپنے قانون پر عمل کرنا پسند نہیں، آپ نے اس وقت کیبل آپریٹرز کے لائسنس کیوں معطل نہیں کیے، پیمرا کا تویہ حال ہے کہ اگرکوئی شکایت کردے تو پیمرا شکایت واپس لینے کیلئے اسکا ہاتھ مروڑ لیتا ہے، پیمرا کو قانون کی فکر نہیں ، کیا اسے آرٹیکل 19 کا پتہ ہے جس کا غلط استعمال ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ جو آگ لگائے، جلائو گھیرائو کرے، اس کو کوریج ملتی ہے۔

فاضل جج نے چیئرمین پیمرا سے استفسارکیا کہ کیا ملک کا ایک بھی ادارہ ٹھیک طرح سے کام کر رہا ہے ، یہاں کسی کو ملک کے مستقبل کی فکر نہیں، آپ نے رپورٹ پر دستخط کیوں نہیں کئے، ایک طرف آ پ کہہ رہے ہیں کہ جرمانہ کیا، دوسری طرف شکایت واپس ہونے کی بات کر رہے ہیں، آخر ہم اس ملک کے ٹیکس ادا کرنے والوں کو کیا دے رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ کتنے دن فیض آباد دھرنے کی وجہ سے ملک بند رہا ہے، کراچی میں 12 مئی کو خون بہایا گیا تھا، آخر اس کا کوئی مقصد تھا، حد تویہ ہے کہ سپریم کورٹ کے باہرریڈ زون میں بھی ایک دھرنا دیا گیا تھا، ججز آ اور جا نہیں سکتے تھے، دھاندلی کے نام پر دھرنا دیا گیا لیکن جب تحقیقات کیلئے کمیشن بنا تواس میں الزام ثابت نہیں ہو سکا توکیا دھرنا دینے والوں نے قوم سے معافی مانگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ دھرنے سے اربوں کا نقصان ہوا، اب عدالت کس کوبلائے۔ آئی ایس آئی کے بریگیڈیر فلک ناز نے کہاکہ اگرعدالت حکم دیتی ہے تو ایجنسی کو معلومات لینے کا ہدایت کر دیتے ہیں، تاہم فی الوقت ایجنسی نیشنل سکیورٹی کو دیکھ رہی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا دھرنا نیشنل سکیورٹی کا معاملہ نہیں، اب ہمیںبطور قوم پختگی دکھا نا ہوگی۔

عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود نے بتایا کہ وہ آئی ایس آئی کے جواب سے مطمئن ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ڈی جی لیگل نے ایک استفسار پر عدالت کوبتایا کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت انتخابی مہم کے لئے فنڈز فراہم کرنے والوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کی پابند ہے تاہم یہ ایک نمائشی قانون ہے اور اگر اس پر عمل نہ ہو تو کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔

جس پرعدالت نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ڈی جی لیگل توخود الیکشن کمیشن کو ایک بے ضرر ادارہ بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ فاضل جج نے کہاکہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی طرح کا ایک آئینی ادارہ ہے لیکن فنڈز کی تفصیلات نہ دینے کا مطلب ممنوعہ فنڈنگ لینا ہوتا ہے، کیا انتخابی اخراجات کی تفصیل نہ دینے والوں کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ ڈی جی لیگل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن انتخابی نشان واپس لینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ بعدازاں عدالت نے اداروں کو دوبارہ جوابات جمع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی۔