امریکی سی آئی اے کا سعودی ولی عہد پر صحافی خاشقجی کے قتل کا الزام

وائٹ ہائوس کا تبصرے سے انکار ، انٹیلی جنس معاملہ ہے،کچھ نہیں کہہ سکتے،محکمہ خارجہ کا بھی امریکی اخبار کو جواب

ہفتہ 17 نومبر 2018 14:06

امریکی سی آئی اے کا سعودی ولی عہد پر صحافی خاشقجی کے قتل کا الزام
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 نومبر2018ء) امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے نے اپنی تحقیقات کے بعد اندازہ لگایا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا۔امریکی میڈیا کے مطابق سی آئی اے کی تحقیقات میں بتایاگیا جمال خاشقجی کے قتل سے قبل اور بعد میں کی جانے والی محمد بن سلمان کی فون کالز اور قتل کے بعد ترکی میں سعودی سفارت خانے میں سعودی ایجنٹس کی کالز کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔

تحقیقات کے مطابق 15 سعودی ایجنٹس پر مشتمل ایک ٹیم اکتوبر میں حکومتی طیارے میں استنبول آئی اور سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو قتل کیا جو وہاں اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے درکار ضروری کاغذات وصول کرنے کے لیے آئے تھے۔

(جاری ہے)

اپنی تحقیقات میں سی آئی اے نے بہت سے انٹیلی جنس ذرائع کا جائزہ لیاجن میں وہ فون کال بھی شامل ہے جس میں امریکا میں تعینات سعودی سفیر اور ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان کی مقتول صحافی جمال خاشقجی سے گفتگو ہوئی تھی۔

سی آئی اے نے بتایا کہ اس معاملے سے آگاہ افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی کو کہا تھا کہ وہ دستاویزات لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے جائیں اور انھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ محفوظ رہیں گے۔ سی آئی اے کو کئی ہفتوں سے یقین تھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں لیکن وہ یہ اس نتیجے پر پہنچنے پر ہچکچا رہے کہ کیا واقعی ولی عہد نے قتل کا حکم دیا تھا۔

حکام کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کے سوچ میں اس وقت تبدیلی آئی جب نئی معلومات سامنے آئیں۔ ان میں وہ کال بھی شامل تھی جس میں ایجنٹوں کی ٹیم کا ایک رکن محمد بن سلمان کے ایک مشیر کو کال کر کے بتایا کہ اپنے باس کو بتا دو کہ مشن مکمل ہو چکا ہے۔اخبار کے مطابق سی آئی اے نے اپنا تجزیہ ٹرمپ انتظامیہ اور قانون سازوں کو پیش کر دیا ہے۔دوسری جانب وائٹ ہاوس نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انٹیلی جنس معاملہ ہے۔اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا گیا۔