افغان امن عمل کے لیے طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے پر امید

امریکی نمائندے سے ملاقاتوں میں قیدیوں کی رہائی ،طالبان رہنمائوں کے عالمی سفر عائد پابندیاں ہٹانے پر گفت وشنید

اتوار 18 نومبر 2018 14:20

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2018ء) امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے قطر میں موجود طالبان عہدے داروں سے تفصیلی گفت و شنید کا دوسرا دور کیا ہے، جس کا مقصد 17 برس پرانی لڑائی کے سیاسی مذاکرات کے ذریعے تصفیے کو آگے بڑھانا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق طالبان کے ساتھ خلیل زاد کی سہ روزہ ملاقاتیں مکمل ہوئیں، جب کہ دونوں فریق مکالمے کے عمل کے بارے میں پٴْرامید دکھائی دئیے۔

یہ بات متعدد طالبان ذرائع نے بتائی تاہم کسی بھی فریق نے سرکاری طور پر اِس بات کی تصدیق نہیں کی یا خلیجی ملک کے دارالحکومت، قطر میں ہونے والی بات چیت کی تفصیل جاری نہیں کی، جہاں افغان طالبان کا خودساختہ سیاسی دفتر قائم ہے۔ایک ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصے کے دوران خلیل زاد کی یہ دوسری ملاقات تھی۔

(جاری ہے)

ٹرمپ انتظامیہ نے اٴْنھیں ستمبر میں اس عہدے پر تعینات کیا تھاجس کا مقصد افغان حکومت اور باغی گروپ کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔

طالبان ذرائع نے اس جانب توجہ دلائی کہ امریکی ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں گوانتانامو بے کے امریکی حراستی مرکز کے سابق قیدی، ملا فضل اور ملا خیرخواہ طالبان وفد میں شامل تھے۔طالبان نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مکالمے کے عمل کا مقصد افغانستان سے تمام امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا نظام الاوقات طے کرنا ہے تاکہ افغانوں کی آپس کی بات چیت کی راہ ہموار ہو،باغی گروپ کا کہناتھا کہ امریکہ کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ اپنے قیدیوں کی رہائی اور چوٹی کے طالبان رہنمائوں کے بین الاقوامی سفر پر لگی ہوئی پابندیوں کو ہٹائے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔

گذشتہ ماہ افغان اہلکاروں اور طالبان نمائندوں کے ساتھ ملاقانوں کے بعد، خلیل زاد نے دونوں فریق پر زور دیا تھا کہ امن مذاکرات کے لیے دونوں اپنے اپنے بااختیار وفود تشکیل دیں۔