موجودہ پانی کے بحران کے باوجود اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زرعی پیداوار کو بڑھانا ہو گا،اسپیکر قومی اسمبلی

سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ،ملک میںپانی کے بحران سمیت زراعت ،کاشتکاری سے متعلقہ امور زیر بحث آئے

پیر 19 نومبر 2018 17:27

موجودہ پانی کے بحران کے باوجود اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زرعی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2018ء) سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کسی بھی زرعی ملک کا دارومدار پانی کی وافر مقدار میں موجودگی پر منحصر ہے ۔ ملک میں پانی کے موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے ہمیں اپنے وسائل کے پیش نظر ایسے اقدامات کرنے ہونگے جس کے ذریعے پاکستان نا صرف اپنی زرعی ضروریات پوری کر سکے بلکہ روزگار کے مواقع بھی میسر آسکیں ۔

اس حصول کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک میںموجودہ پانی کے بحران سمیت زراعت اور کاشتکاری سے متعلقہ امور زیر بحث آئے ۔ اس موقع پر اسپیکر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا شمار بڑے زرعی ممالک میں ہوتا ہے اور ہم اجناس اُگانے میں نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ دوسرے ممالک کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زراعت نہری اور بارانی نظام کے ذریعے چلتی ہے مگر حالیہ بحران کے باعث دریائوں میں پانی کی کمی کی بدولت سرسبز علاقے بنجر ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے موجودہ وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے طریقہ کار اپنانے ہونگے جس کے ذریعے ہم کھیت کھلیانوں کو بنجر زدہ ہونے سے روک سکیں۔ اسد قیصر نے مزید کہا کہ تربیلا ڈیم کے ذریعے قریبی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے چھوٹی نہریں اور پائپ لائن بچھائی جائیںجس کے ذریعے پانی سے محروم علاقوں تک زراعت کے لیے پانی پہنچایا جا سکے ۔

اجلاس کے دوران پیہور ہائی لیول کینال ایکسٹینشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر عطاء الرحمن نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایشن ڈیویلمنٹ بنک کے تحت 10.1بلین روپے کے ذریعے ایک پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے ۔ پروجیکٹ کے تحت تربیلا ڈیم سے نہری نظام کے ذریعے 91کلومیٹر تک زرعی زمینوں کو پانی مہیا کیا جائے گا۔علاوہ ازیں 30کلومیٹر لمبی پریشر پائپ لائن بھی بچھائی جائے گی جو بنجر علاقوں کو سیراب کرے گی ۔

انہوں نے بتایا کہ ان متبادل نظام کے تحت 228کیوسک پانی صوابی اور اُس سے ملحقہ علاقوں تک پہنچایا جائے گا جس سے 30ہزار5سو ایکڑ اراضی کو سیراب کر کے زیر کاشت لایا جائے گا۔پروجیکٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ منصوبہ دسمبر 2022تک مکمل کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت متعلقہ علاقوں میں بارانی نظام کے تحت 6ہزار میٹرک ٹن پیدوار ہو رہی ہے جبکہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد علاقے کی پیدوار 1لاکھ 15ہزار میٹرک ٹن تک پہنچ جاے گی ۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ جنڈا بوکا، ٹوپی، مینئی، پنج پیر ، کالادرہ، میاں ڈھیری، گجو خان، میرہ ، امبار ، انڈس ،نندرک، شاہ منصور، گنج ونڈ، جنڈی ڈھیری سمیت دیگر علاقے مستفید ہونگے۔ بریفنگ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے علاقے اور ملک کی ناصرف زرعی پیداوار میں ترقی آئے گی بلکہ علاقہ مکینوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی میسر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکار زرعی اجناس کی پیداوار کے ذریعے اپنی خوراک کی ضروریات پوری کریں گے اور انہیں منڈیوں میں فروخت کر کے ملک کی معاشی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے اور اس سے سالانہ قومی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔