ہمیشہ قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کی، پاکستان کی صحافت میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کا سب سے زیادہ کرداررہا،حسین نقی

حسین نقی اظہار رائے کی آزادی کا استعارہ،ان کیوجہ سے صحافت میں دوبارہ جان آگئی ہے،ان کے جلائے ہوئے شمع کو بھجنے نہیں دیں گے،ضیا الدین،حامد میر،طارق چوہدری،افضل بٹ،مبارک زیب ودیگر کا خطاب

منگل 20 نومبر 2018 19:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 نومبر2018ء) سینئر صحافی حسین نقی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تابندہ صحافت میں مشرقی پاکستان کے سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کا سب سے زیادہ کرداررہا ہے ،معزز چیف جسٹس کا شکریہ جنہوں نے صحافیوں کو کوایک کر دیا،پاکستان میں صحافت کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ 1948میں ہی ہو چکا تھا،آمریت کے زمانے میں آنے والے پریس نوٹ کی پروف ریڈنگ کی بھی اجازت نہیں تھی،پاکستان میں مختلف طریقوں سے صحافت پر پابندی کی کوشش کی گئی،اس میں کچھ سیاسی جماعتوں کا بھی کرار ہے۔

منگل کو نیشنل پریس کلب میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حسین نقی نے کہا کہ ہمیشہ قانون کی بالا دستی کیلئے جدوجہد کی،عدالتوں کا ہمیشہ احترام کیا ہے، ضیاء الحق نیایک سرکل کے ذریعے صحافی، ٹریڈ یونین اور طلبا یونین کو شرپسند گروہ قرار دے کر ان کے اتحاد پر پابندی لگائی تھیں،نیشنل پریس کلب میں ہریالی دیکھ کر خوشی ہوئی، کے جی مرزا،قیصر پاکستانی صحافی تھے جو بنگال میں ٹینکوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

(جاری ہے)

مقررین کا حسین نقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حسین نقی اظہار رائے کی آزادی کا استعارہ ہے،ان کی کی وجہ سے مزاحمتی صحافت میں دوبارہ جان آگئی ہے،ان کے جلائے ہوئے شمع کو بھجنے نہیں دیں گے،انہوں نے ہمیشہ طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی،انکی وجہ سے آج مل بیٹھنے کا سلیقہ آیا،آج پورے صحافیوں کو متحد کر دیا۔سینئر صحافی محمد ضیاء الدین احمد نے کہا کہ حسین نقی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،زمانہ طالب علمی میں انہوں نے کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا،حسین نقی نیجرنلزم کے اصول سکھائے،ایچ آر سی پی نے کو میڈیا سے متعلق رپورٹ دی ہے اس کو پڑھنے کی ضرورت ہے،حکومت میڈیا کے ساتھ جو کر رہی ہے اس سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے،پاکستان کی تاریخ میں میڈیا پر اس سیبرا وقت نہیں آیا،صحافیوں میں اگر اتحاد ہو تو ان مشکلات میں کمی لائیں جا سکتی ہیں،اخبار میں آرٹیکلز نہیں چھپتے۔

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ ساریباشعور لوگوں کو معلوم ہیں کہ آنے والا وقت میڈیا کیلئے سازگار نہیں،جو بات آج ہم کررہے ہیں وہ عاصمہ جہانگیر دو سال پہلے کر چکی ہیں۔صدر نیشنل پریس کلب طارق چوہدری نے کہا کہ ہہلے یہ سوچتا تھا کہ اس معاشرے سے جمہوریت ختم ہو گئی ہے،حسین نقی کے ذریعے صحافت اور جمہوری اقدار میں دوبارہ جان آگئی،ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہو گا کہ حسین نقی کے کردار کو زندہ رکھیں گے۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ ان کی وجہ سے صحافی آج اکٹھے ہوئے،غیر اعلانیہ سنسرشپ کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کی کوشش کی تھی،میڈیا کے ساتھ ابھی تو آغاز ہوا ہیآگے حالات اس سے سنگین دیکھ رہے ہیں،صحافیو ں کو حسین نقی جیسے لوگوں کے احترام میں اتحاد کو برقرار رکھنا چاہئے،ایک اخبار میں مضبوط ایڈیٹر ہوں تو انہیں تردید چھاپنے کی ضرورت نہیں پڑتی،نوجوان صحافیوں کیلئے مشعل راہ ہیں،مظلوم طبقات کیلئے لکھنا انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی جد وجہد شروع کی،کسی کے پیچھے اندھا دھند فالوکیا جا سکتاہے تووہ حسین نقی اور ضیاء الدین ہیں۔

مبارک زیب خان نے کہا کہ حسین نقی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،جس طرح کا آپ نے اسٹینڈ لیا اس کی تعریف کیلئے ہمارے پاس الفاظ نہیں،پہلے وکل زبان والے صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جاتاتھا مگر اب میڈیا ہائوسز کو کنٹرول کر کے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے،پہلے صحافت میں مزاحمت ہوتے تھے اب کمپرومائززہو رہے ہیں،حسین نقی جیسے لوگوں کی وجہ سے صحافت میں دوبارہ جان آئی ہے۔

شاعر حارث خلیق نے کہا کہ حسین نقی جیسے لوگ تعریف کے مستحق ہیں،ہمیشہ طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی۔کالم نگار کشور ناہید نے کہا کہ ہمیں بھی مل بیٹھنے کا سلیقہ آیا،ایوب خان کے دور میں حسین نقی،فتح حیات جیسے لوگوں کوکالج سے نکالے گئے،اردو بولنے والے نے پنجابی بولنے والے کیلئے اخبار نکالا،حسین نقی،منہاج برنا ہماری طاقت ہیں،چیف جسٹس نے بھی تسلیم کیا کہ حسین نقی عظیم انسان ہیں۔

سیکرٹری جنرل آر آئی یو جے علی رضا علوی نے کہا کہ حسین نقی نے پریس کلب کاقد بڑھایا دیا،حسین نقی کے جلائے ہوئے شمع کو بھجنے نہیں دیں گے،حسین نقی کے بارے میں پوچھنے والوں کو کسی سے پوچھناچاہئے تھا کہ تاریخ میں حسین اور نقی کون تھے۔ناصر ملک نے کہا کہ یہ شہری آزادی،اظہارے رائے کی آزادی کیلئے جنگ لڑنے والے کو دعوت دینا اعزاز کی بات ہے،حسین نقی اظہار رائے کی آزادی کی علامت ہے،اظہار رائے کیلئے لڑنا انہی سے سیکھا،ان کا جو قرض ہیں وہ چکاناممکن نہیں،صحافت کا گلا گھونٹنے والوں کو پیفام دینا دینا تھا کہ ابھی حسین نقی،منہاج برنا اور نثار عثمانی کے پیروکار زندہ ہیں،اظہار رائے کی آزادی کے خلاف حکومت،عدلیہ اور ملٹری کے درمیان گٹھ جوڑ ہیں،سپریم کورٹ اس پیٹشن کو بھی سنیں جس میں ملٹری کے چینلز کی تفصیلات بتانے سے متعلق ہے،اب پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیرا) کیذریعے میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مستنصر جاوید نے کہا کہ حسین نقی کیلئے چند الفاظ کہنا میری خواہش تھی۔فوزیہ شاہدحسین نقی نے چند گھنٹوں میں صحافیوں کو متحد کر دیا۔