سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

اٹارنی جنرل ریاست کا سب سے بڑا لاء افسرہے یا وزیراعظم کا ذاتی ملازم جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا اٹارنی جنرل کی عدم حاضری برہم ای سی سی اجلاس میں ان کا کیا کام ہے ،ْکیا اٹارنی جنرل ماہر معاشیات ہیں ٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے معذرت کرنی چاہیے تھی ،ْریمارکس آپ ایک جماعت کو نوٹس کریں وہ کہے جہنم میں جاؤ،پھر آپ کیا کرینگی کیا شکریہ کہہ کر کیس ختم کر دیں گی جسٹس فائز عیسیٰ کا سیکرٹری الیکشن سے مکالمہ آئین میں الیکشن کمیشن کا کام انتخاب کرانا ہے ،ْ پارلیمنٹ کے بنائے الیکشن قوانین میں سقم ہے ،ْاٹارنی جماعت دوران سماعت عدالت میں پیش کیا آپ سیاسی جماعت پر جرمانہ عائد نہیں کر سکتی کیا آپ سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کر سکتی جسٹس فائز عیسیٰ کا سوال رجسٹریشن منسوخ کرنے کا طریقہ کار الگ ہے، اٹارنی جنرل …اپنی غلطی پر پارلیمنٹ کو الزام مت دیں ،ْ جسٹس فائز عیسیٰ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان کیسے چلانا ہے، طاغوتی قوتوں نے ملک کا مستقبل طے کرنا ہے یا پارلیمنٹ نی کیا بنیادی حقوق بھی محض زیبائشی چیزیں ہیں ،ْریمارکس

جمعرات 22 نومبر 2018 19:33

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 نومبر2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی عدم حاضری شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اٹارنی جنرل ریاست کا سب سے بڑا لاء افسرہے یا وزیراعظم کا ذاتی ملازم ای سی سی اجلاس میں ان کا کیا کام ہے ،ْکیا اٹارنی جنرل ماہر معاشیات ہیں ٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے معذرت کرنی چاہیے تھی۔

جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل ایک بار پھر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ اٹارنی جنرل اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہیں۔

(جاری ہے)

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل ماہر معاشیات ہیں ای سی سی کے اجلاس میں ان کا کیا کام اٹارنی جنرل ریاست کا سب سے بڑا لاء افسرہے یا وزیراعظم کا ذاتی ملازم کیوں نہ اٹارنی جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے، ان کے کہنے پر ہم نے کیس 11 بجے رکھا ،ْآپ عدالت کی بے توقیری کر رہے کیا یہ مذاق ہی اٹارنی جنرل کے فرائض میں عدالتی کام ہیں وزیر اعظم کے نہیں ،ْعدالتی حکمنامے میں اٹارنی جنرل کیخلاف آبزرویشن دیں گے، سمجھ نہیں آتی ریاستی عہدیدار اقتدار میں ہوتے ہوئے کسی کے ملازم کیوں بن جاتے ہیں، انہیں عوام کے پیسے سے تنخواہیں دی جاتی ہیں، حکومت کو پاکستان کا خیال نہیں۔

معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل اور ججز سمیت ہر کوئی ریاست کا ملازم ہے ،ْ کیا وزیراعظم سپریم کورٹ سے بالا ہیں وزیراعظم نے اٹارنی جنرل کو کہا اور وہ منہ اٹھا کر چل دئیے، اٹارنی جنرل کو وزیراعظم کو بتانا چاہیے تھا کہ انہیں عدالت میں پیش ہونا ہے، اٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے معذرت کرنی چاہیے تھی۔سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 20 نومبر کو وزارت داخلہ کو ٹی ایل پی کی رجسٹریشن سے متعلق خط لکھا ہے، ہمارا قانون مصنوعی نہیں ہے ،ْالیکشن کمیشن کے لاء آفیسر نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے، الیکشن کمیشن نے قانون پر عمل نہ کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس کیے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ آپ ایک جماعت کو نوٹس کریں وہ کہے جہنم میں جاؤ،پھر آپ کیا کرینگی کیا شکریہ کہہ کر کیس ختم کر دیں گی الیکشن کمیشن کہتا ہے ان کا قانون مصنوعی ہے۔دورانِ سماعت اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور اس موقع پر انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں الیکشن کمیشن کا کام انتخاب کرانا ہے ،ْ پارلیمنٹ کے بنائے الیکشن قوانین میں سقم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل نے سوال کیا کہ کیا آپ سیاسی جماعت پر جرمانہ عائد نہیں کر سکتی کیا آپ سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ نہیں کر سکتی ۔نجی ٹی وی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹریشن منسوخ کرنے کا طریقہ کار الگ ہے، اس پر معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ اپنی غلطی پر پارلیمنٹ کو الزام مت دیں، ہم ہر وقت پارلیمنٹ کے خلاف بات کرتے ہیں، پارلیمنٹ الیکشن قوانین میں بہت کلیئر ہے ،ْ پارلیمنٹ کی خودمختاری کو تسلیم کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید استفسار کیا کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے دھرنا دیا توان کا مطالبہ تھا کہ دھاندلی ہوئی کمیشن بنایا جائی کمیشن نے متفقہ طور پر کہا دھاندلی کے الزامات غلط ہیں، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے کیا قوم سے معافی مانگی کیا انہیں چاہیے نہیں تھا کہ وہ قوم سے معافی مانگتی انہوں نے کہا کہ وہ کمیشن کے نتائج ہی کو نہیں مانتے۔

معزز جج نے کہا کہ ہمیں طے کرنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان کیسے چلانا ہے، طاغوتی قوتوں نے ملک کا مستقبل طے کرنا ہے یا پارلیمنٹ نی کیا بنیادی حقوق بھی محض زیبائشی چیزیں ہیں سماعت کے دور ان جسٹس مشیر عالم کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی حکم کے مطابق پیمرا، آئی ایس آئی اور الیکشن کمیشن کی رپورٹس جمع کروا دی ہیں۔

جسٹس مشیر عالم نے چیرمین پیمرا سے پوچھا کہ کیا ابھی تک کسی آپریٹر کا لائسنس منسوخ کیا گیا ۔جس پر پیمرا کے وکیل نے کہا کہ ایک سے 10 لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا گیا، جس پر معزز جج نے ریمارکس دیے کہ میں لکھ رہا ہوں کہ کچھ بھی نہیں کیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اب ہم کنٹرولڈ میڈیا اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں ،ْ اس چینل کو بند کر دو ،ْ اس کو بند کر دو ،ْ کیا ہم جھوٹوں کی قوم بن کر رہ چکے ہیں انہوں نے ریمارکس دیے کہ صبح سے شام تک چینل بند رہے پیمرا کو پتہ نہیں چلا، کسی کو شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔

دوران سماعت عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کی رپورٹ کو دھوکا دہی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کے لیے ایک اور اعزاز ہے۔جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جن چینلز پر تعریف ہوتی ہے انہیں چلنے دیں، جہاں تعریف نہیں ہوتی وہ بند کردیں ،ْکیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہی انہوں نے کہا کہ چینلز کو جھکانا ہے تاکہ آپ کی مرضی کی بولی بولیں ،ْیہ پاکستان ہی اس لیے آزادی حاصل کی تھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین پیمرا کے پاس قانون پر عمل کرانے کی ہمت نہیں۔

سماعت کے دور ان اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک لبیک کو انتخابی نشان سے محروم کرسکتے ہیں اور بغیر نشان کے وہ انتخابات نہیں لڑسکیں گے۔اس ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ٹی ایل پی دبئی میں مقیم شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہے، کیا یہ کیس دوہری شہریت کے قوانین میں آسکتا ہی اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قومی شناختی کارڈ برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی (نائیکوپ) ان پاکستانیوں کیلئے ہے جو ملک سے باہر رہتے ہیں، نائیکوپ رکھنے والا شخص دوہری شہریت کا حامل نہیں ہوتاجس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا نائیکوپ رکھنے والے سے دوہری شہریت کے بارے میں نہیں پوچھنا چاہیے تھا اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال سے پوچھنا چاہیے تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن جہاں دھمکیاں دی جائیں، تشدد پر اکسایا جائے وہاں کارروائی ہوسکتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنے سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔