آزاد کشمیر کی اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے گی، صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان

ہفتہ 24 نومبر 2018 16:33

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2018ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کی اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں میں علوم اسلامیہ کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے گی اور اس سلسلہ میں ریاست کی جامعات میں پہلے سے موجود علوم اسلامیہ کے شعبہ جات کو مذید مستحکم کیا جائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیئرمین علماء مشائخ کونسل مولانا عبیداللہ فاروقی سے ایوان صدر مظفرآباد میں ایک ملاقات کے دوران کیا ۔

صدر سردار مسعود خان نے آزاد کشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ علماء کرام اور مشائخ عظام اپنے دینی خطبات اور دعوت تبلیغ کے اجتماعات میں عقائد عبادات اور فقہی مسائل کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل اور اُن کے حل پر بھی روشنی ڈالیں جن کا براہ راست تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہے تاکہ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنی زندگیوں کو ڈہال کر ایک فلاحی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین علماء مشائخ کونسل مولانا عبیداللہ فاروقی نے صدر سردار مسعود خان کو 26 نومبر کو ہونے والی قومی سیرت مصطفی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور پونچھ یونیورسٹی کے منگ کیمپس سے متعلق اہم مسائل صدر آزاد کشمیر کے نوٹس میں لائے ۔ انہوں نے یونیورسٹی آف پونچھ کے منگ کیمپس کی حفاظتی دیوار کی تعمیر یاد گار شہداء لائبریری کے لیے وسائل کی فراہمی ، سدھن ایجوکیشن کانفرنس سے متعلق امور سمیت تعلیم ، صحت اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے معاملات بھی صدر گرامی کے علم میں لائے ۔

دریں اثناء ایک انگریزی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر ایک ریاست کے دو حصے ہیںلیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ آزاد علاقے میں بسنے والے عوام آزادی کی فضا میں اپنی زندگی اپنی منشاء اور مرضی سے بسر کر رہے ہیں اور معاشی خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں جبکہ لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب ہمارے بہن بھائی جو ہمارے جسم کا حصہ ہیں ظلم ، جبر ، بربریت اور نہ ختم ہونے والی دہشت کے ماحول میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

جن پر ہونے والے ظلم سے آزاد کشمیر کے عوام بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی و حریت کی آواز بلند کرنے والے جوانوں ، بچوں اور بوڑھوں کو شہید ، زخمی اور زندگی بھر کے لیے معذور کیا جا رہا ہے ۔ عزت مآب خواتین کی آبروریزی اور جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔

پیلٹ گنوں جیسے مہلک ہتھیار کے ذریعے نوجوانوں کو نشانہ بنا کر انہیں بینائی سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ مقبوضہ وادی میں ایسی ہزاروں قبریں دریافت ہوئیں ہیںجہاں نوجوانوں کو ان کے گھروں سے ، محلوں سے اور کاروباری جگہوں سے اغواء کر کے تشدد سے شہید کر کے بغیر کسی شناخت کے دفن کر دیا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی قابض افواج جنہیں کالے قوانین کے تحت بے پناہ اختیارات حاصل ہیں جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو شہید کر کے انہیں عسکریت پسند ظاہر کرتے ہیں۔

جبکہ اس کے مقابلہ میں آزاد جموں و کشمیر ایک پرُ امن علاقہ ہے جہاں جرائم کی شرح انتہائی کم اور تعلیم کی شرح پاکستان کے تمام علاقوں کی نسبت بلند ہے ۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر عام افراد کے سیاسی معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کا ایک نظام موجود ہے ۔ آزاد کشمیر میں کوئی سیاسی قیدی یا نظر بند نہیں اور یہاں کی حکومت قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا نے ، عوام کو مثالی انتظامیہ فراہم کرنے اور اقتصادی ترقی کے ذریعے عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔