آرٹس کونسل میں اردو کانفرنس میں معروف شعراء اور ادباء کا جہان فانی سے کوچ کرجانے والے شعراء کی یاد میں اظہار خیال

اتوار 25 نومبر 2018 20:40

(کراچی (این این آئی) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے دن یادِ رفتگاںکے عنوان سے منعقدہ تیسرے اجلاس کے موقع پر ملک کے معروف شعرااور ادبانے اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے شعراکی یاد میں اظہارِ خیال کیا، اجلاس کی نظامت خرم سہیل نے کی، معروف شاعر افتخار عارف نے ساقی فاروقی مرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ساقی فاروقی 1965میں پاکستان چھوڑ کر باہر ملک چلے گئے تھے، میں نے ان کو دیکھا نہیں تھا مگر جس طرح کی باتیں ان سے منسوب تھیں تو ان انہیں دیکھنے اور ملنے کی خواہش بیدار ہوئی، اس زمانے میں اچھا شعر سن کر ہمیں رونا بھی آجاتا تھا، ساقی فاروقی بہت دنوں تک مذہب سے بیزار بھی رہے لیکن خود کشی کی ناکام کوشش کے بعد اپنے دوستوں کو لاکر بٹھایا اور کہاکہ میں مسلمان ہوں اور میری نماز عدیل صدیقی پڑھائیں گے، انہوں نے کہاکہ موت بہت سے فاصلوں کو خاموش کردیتی ہے، اگر خاموش نہیں کرتی تو انسان کو خود سوچنا چاہئے کہ وہ دوسروں کو معاف کرے یا نہ کرے خود کو تو معاف کرلے، ساقی فاروقی رومانوی شاعروں سے بہت چڑتے تھے اور باقاعدہ محاذ آرائی کرتے تھے، میں نے ساقی فاروقی سے بہت کچھ سیکھا ہے ان کی سوچ یہ تھی کہ اگر انہیں رومانوی شاعری پسند نہیں ہے تو مجھے بھی کوئی حق نہیں کہ میں فراز کو پسند کروں، ساقی فاروقی کبھی کسی غیر سے جھگڑا نہیں کرتے تھے جب بھی کرتے دوستوں سے کرتے تھے، اسی طرح انہوں نے کبھی بڑے نقاد سے جھگڑا نہیں کیا ہمیشہ کمزور آدمی سے جھگڑتے تاکہ وہ انہیں کچھ کہہ نہ سکے، انہیں جانوروں سے بہت محبت تھی اسی لئے جانوروں پر ان کی کئی نظمیں بھی موجود ہیں، سید نعمان الحق نے معروف افسانہ نگار ، نقاد اور مترجم محمد عمر میمن مرحوم کے بارے میں اظہارِ خیال کیا، انہوں نے بتایا کہ ان کے والد مولانا عبدالعزیز میمن اس وقت بہت بڑے عالم کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور برصغیر میں عربی لغت کا جاننے والا ان سے بڑا نام کوئی نہیں تھا، انہوں نے بتایا کہ محمد عمر میمن کی زیادہ تر توجہ تفسیر پر ہی رہی، وہ بہت ذہین ، محنتی اور باصلاحیت تھے جب ان کے انتقال کی خبر مجھے ملی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اپنے ہی گھر میں کوئی حادثہ ہوگیا ہے، ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جمہوریت کی علمبردار اور عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض مرحومہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے خواتین سے متعلق صدیوں سے وابستہ باتوں کو اپنی شاعری سے رد کیا، ان کی شاعری میں عورت کے وجو د کا بھرپور ادراک موجود ہے، فہمیدہ نے تلخ موضوعات پر بھی لکھا ہے اور یہ بتایا کہ عورت انسان ہے کوئی اثاثہ نہیں جسے تقسیم کردیا جائے یا کسی کو تحفے میں دے دیا جائے، ان کی نظم عام معاشرتی رویوں کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہے، شاعری کے سفر میں انہوں نے خود کو زبان ومکاں کی قید سے ہمیشہ آزاد جانا ہے، ایوب خاور نے نامور ڈرامہ اور کالم نگار منو بھائی کے حوالے سے تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ منو بھائی ان شخصیات میں ہیں جن کی بدولت پاکستان کی ادبی، سیاسی اور صحافتی اقدار ترتیب پاتی ہیں، منو بھائی ایک روشن خیال اور بہترین شاعر تھے ان کی نظم ابھی قیامت نہیں آئی اردو کی بہترین نظم ہے، منو بھائی کادل، ذہن اور قلم ایک ایسی تکون ہی پر رہے جس کی ایک ہی نوک تھی اور وہ تھی سچ کی نوک ، اس نوک سے انہوں نے اپنی شاعری کی اور کالم تحریر کئے، منو بھائی ایک کردار ساز ڈرامہ نگار تھے، انہوں نے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی کے لئے لکھے تھے، یہ حقیقت ہے کہ منو بھائی اب ہم میں نہیں ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود رہیں گے۔

(جاری ہے)

عرفان جاوید نے احمد بشیرمرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ احمد بشیر کا روسی انقلاب اور سوشلزم پریقین اور جذبہ بوڑھے انقلابی کے سینے میں آخری وقت بھی دھڑک رہا تھا، احمد بشیر نظریاتی اور عملی طور پر انسانیت کے خیرخواہ تھے۔ انہوں نے سردیوں میں اپنا ایک ہی کوٹ ایک غریب آدمی کو دے دیا اور ایک دفعہ تین ہزار روپے ایک شخص کو اس لئے دے دیئے کہ اس نے کہاکہ اس کی بیوی کی طبیعت خراب ہے، وہ اردو اور انگریزی دونوں پر مہارت رکھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ ان کی وہ تحریریں زیادہ مشہور ہوئیں جو سطحی نوعیت کی تھیں، مبین مرزا نے معروف شاعر رسا چغتائی مرحوم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ رسا چغتائی ہر ایک سے بہت گرم جوشی سے ملنے والے اور ملنسار تھے وہ بہت زیادہ مذہبی تو نہیں تھے مگر ان کے ایک دوست نے ان کو ایک بار نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ ساری نمازیں پڑھتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ جب پڑھنی ہوتی ہے تو پڑھ لیتا ہوں اور نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے باتیں کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یا اللہ میں تیرا باغی تھوڑی ہی ہوں، میں تو تیرا بندہ ہوں اور بس، رسا چغتائی نے دنیا داری سے کبھی شغف نہیں رکھا ان کا مزاج قلندرانہ تھا، کورنگی میں ایک مکان میں اپنی زندگی کا پچاس سال سے زائد عرصہ گزار دیا اور موت سے قبل ڈیڑھ سال پہلے وہ مکان اس لئے فروخت کردیا کہ اولاد وں کو جائیداد میں حصہ ان کی زندگی ہی میں مل جائے، وہ فقیرانہ طبیعت کے شخص تھے ، باہر ممالک سے جب انہیں مشاعرہ پڑھنے کے لئے بلایا جاتا اور بہت زیادہ معاوضہ کی پیشکش کی جاتی تو وہ طبیعت نہ ہونے کے باعث منع کردیا کرتے تھے اور اگر شہر کراچی میں کوئی انہیں مشاعرے میں بلائے اور نذرانہ بھی کم پیش کرتے تو وہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی اپنے سامعین کی محبت میں چلے جایا کرتے تھے، رسا چغتائی نے خود پر کبھی تھکن نہیں چڑھائی جب وہ پاکستان آنے لگے تو انہوں نے اپنی بیوی سے یہ پوچھا کہ میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا ہے اگر تم چلنا چاہو تو چلو اور وہیں رکنا چاہو تو رک جا، جس پر ان کی بیوی نے کہاکہ اب تو مرنا اور جینا آپ ہی کے ساتھ ہے لہذا میں بھی آپ کے ساتھ پاکستان چلوں گی، رسا چغتائی 1950میں پاکستان کے لئے ہندوستان سے چلے مگر کیمپ میں کافی عرصہ رہنے کے بعد 1951میں پاکستان آنے کا موقع ملا، یہاں آکر انہوں نے شعبہ مالیات میں ملازمت کرلی، بعد ازاں 1977میں ریٹائرمنٹ لے لی اور 1989تک حریت اخبار میں کام کیا، اس کے بعد انہوں نے ملازمت مکمل طور پر چھوڑ دی اور مشاعروں میں شرکت کرنے کے نتیجے میں جو نذرانہ انہیں ملتا اسی پر انہوں نے اپنی گزربسر کی۔