Live Updates

پاکستان خطہ میں امن کا خواہاں ہے، امن آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے،پاکستان اور بھارت دو جوہری طاقتیں ہیں جو کسی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں، دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں،

مسئلہ کشمیر کا حل بھی مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں ذہن بدل چکا ہے بھارت کو بھی بدلنا چاہئے، کرتارپور راہداری کو کھولنا سکھ برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا، ہندو یاتریوں کیلئے بھی ویزوں کا حصول بھی آسان بنائیں گے وزیراعظم عمران خان کی بھارتی صحافیوں سے گفتگو

جمعہ 30 نومبر 2018 21:06

پاکستان خطہ میں امن کا خواہاں ہے، امن آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے،پاکستان ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 نومبر2018ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان خطہ میں امن کا خواہاں ہے، امن آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے،پاکستان اور بھارت دو جوہری طاقتیں ہیں جو کسی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں، دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں، مسئلہ کشمیر کا حل بھی مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں ذہن بدل چکا ہے بھارت کو بھی بدلنا چاہئے، کرتارپور راہداری کو کھولنا سکھ برادری کا دیرینہ مطالبہ تھا، ہندو یاتریوں کیلئے بھی ویزوں کا حصول بھی آسان بنائیں گے۔

انہوں نے یہ بات جمعہ کو یہاں بھارتی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین اور وفاقی وزیر تعلیم و تربیت شفقت محمود بھی ان کے ہمراہ تھے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے کہا کہ جب میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا تو بھارت سے ہار کسی طور پر آپشن نہیں ہوتا تھا، اتنا عوامی دبائو ہوتا تھا کہ بھارت سے ہار نہ جائیں تاہم اس کے ساتھ ساتھ امن کی خواہش تب سے ہے، کرتارپور کی راہداری کھلنے کے عمل کو پاکستان میں سراہا گیا، بھارت کی صورتحال آپ بہتر بتا سکتے ہیں، جو بھارت میں جانتا ہوں اس میں اکثریت اس عمل کو سراہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر کی بات نہ جائے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میںکسی کانفرنس میں بھارت گیا اور اس وقت من موہن سنگھ وزیراعظم تھے، من موہن سنگھ کہہ رہے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ انڈیا کو ترقی سے روک رہا ہے۔ میرا کہنا بھی یہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے، ہر چیز ممکن ہے، میں اس تناظر میں کہہ رہا تھا کہ اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور یہ مسئلہ ہمیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔

جب آگے بڑھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی واقعہ ہمیں آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ ممبئی واقعہ کے باعث مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے، میں پہلے دن سے یہ کہہ رہا ہوں لیکن انڈیا کی طرف سے اچھا ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔ انہوں نے مذاکرات بھی منسوخ کر دیئے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس موقع پر نیویارک میں وزراء خارجہ کی ملاقات بھی منسوخ کر دی۔

بھارت کی طرف سے مذاکرات کے حوالہ سے شرائط عائد کرنے سے لگتا ہے کہ اس کی مذاکرات کی نیت ہی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا چونکہ بھارت میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو ہم الیکشن کا انتظار کر لیتے ہیں، اپریل کے بعد اس عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ کرتارپور کوریڈور کھولنے کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا تب سے یہ بات شروع ہو گئی تھی کہ ہم یہ کوریڈور کھولیں، سکھ برادری کا بہت دیرینہ مطالبہ تھا جس پر سکھ برادری خوش ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کیلئے پاکستان کی سرزمین کا استعمال ہمارے مفاد میں نہیں، امریکہ کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ وہ اس لئے 17 سال افغان جنگ نہیں جیت سکے کیونکہ پاکستان سے دہشت گرد آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ پاکستان کے مفاد میں ہوتا تو ہم بھاری لاگت سے افغان سرحد پر باڑ کیوں لگاتے، خوامخواہ پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے، کسی کو بھی اپنی سرزمین غلط استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے، افغانستان سے یہاں 27 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں، حکومت پاکستان نے کوشش کی کہ ان کو باعزت انداز میں وطن واپس بھیجیں تاہم وہ بھی واپس نہیں جا رہے، اس لئے ہم اب باڑ لگا رہے ہیں جس طرح بھارت نے بھی سرحد اور ایل او سی پر باڑ لگا رکھی ہے۔

پاکستان میں ذہن بدل رہا ہے لیکن ہندوستان کا ذہن نہیں بدلا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے قانون بنائے، نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہماری ساری سیاسی جماعتوں نے مل کر نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کئے، کسی مسلح گروپ کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تنازعہ کشمیر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ اس مسئلہ اور اس کے حل پر بحث کا فورم نہیں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ اس مسئلہ کا کوئی آسان حل ہے، ہم 70 سال میں کسی حل پر نہیں پہنچے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجوہات ہیں۔

دونوں ممالک کیلئے اس کو حل کرنا مشکل ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ حل ہے اور یہ حل تب نکلے گا جب ہم مذاکرات کیلئے بیٹھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ بھارت میں جب میری نٹور سنگھ کی موجودگی میںبی جے پی کے سابق وزیراعظم واجپائی سے ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن نہ ہارتے تو ہم کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے بہت قریب آ گئے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ برصغیر کے عوام کو امن کے ذریعے بہت زیادہ ثمرات حاصل ہوں گے اور بھارت کو زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔ دوطرفہ تجارت سے دونوں ملکوںکے عوام کا معیار زندگی بلند ہو گا، ہم چین، بھارت سمیت اتنی بڑی مارکیٹ کے پاس بیٹھے ہیں اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو تو اس سے سارے برصغیر کو فائدہ حاصل ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح غریب افراد کی بہتری ہے، ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، ہم کوشش کرتے رہیں گے کہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تنازعات حل کر سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بات چیت کے بغیر مسائل کیسے حل ہوں گی بھارتی حکومت اس وقت بات چیت کیلئے تیار نہیں ہے ہم انتخابات کے بعد بات کر لیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہندو یاتریوں کیلئے ویزوں کا حصول آسان بنائیں گے، بدھ مت ٹورازم کیلئے تیاری کر رہے ہیں، گندھارا تہذیب کے علاوہ ہندوئوں کے بڑے مندر پاکستان میں ہیں۔ حافظ سعید کے حوالہ سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حافظ سعید اور ان کی جماعت پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں جبکہ ممبئی کے حوالہ سے دوسرے افراد پر عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وہ پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ کوئی بھی پاکستان کی سرحد کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور وہ اس ضمن میں پوری کوشش کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انسان کوشش کر سکتا ہے، اب یہ بھارت پر منحصر ہے، ہم نے پہلے بھی کوشش کی تاہم اقوام متحدہ میں طے شدہ وزراء خارجہ کی ملاقات بھارت کی جانب سے منسوخ کر دی گئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ عوامی سطح پر مخاصمت نہیں، ہماری حکومت نے مذاکرات کے حوالہ سے کھلی پیشکش کی ہے، اب یہ بھارت پر منحصر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ جب بھی بھارت گئے یا بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیا اس میں بات یہاں آ کر رک جاتی ہے کہ ماضی میں کیا ہوا، میں نے کل بھی یہ کہا تھا کہ ماضی میں انسان رہتا نہیں بلکہ اس سے سیکھتا ہے، ہمارے ماضی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اس قسم کے تنازعہ نے اس خطہ کو آگے بڑھنے سے روکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں یہ خطہ دنیا کا امیر ترین علاقہ تھا تاہم اب غریب تر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں رہتے ہوئے ہم بھی چنگل میں پھنسے رہ سکتے تھے، پنجاب کی سرحد پر جو قتل عام 1947ء میں ہوا شاید ہی تاریخ میں اس کی مثال ملتی ہو، یہاں آنے والے ہر ایک فرد کے پاس اس حوالہ سے پوری کہانی تھی، یہ کہانیاں سن کر ہمارے اندر بھارت کے خلاف نفرت تھی، ہم بعد میں جب کرکٹ کھیلنے بھارت گئے تو آہستہ آہستہ ہمارا ذہن بدلا جس طرح اب لوگوں کے رویہ میں تبدیلی آ رہی ہے۔

کرتارپور بارڈر میں جب 70 سال خون خرابہ ہوا تھا اور اب جس طرح کی تبدیلی آئی ہے اور لوگوں کے رویئے تبدیل ہوئے ہیں اسی طرح قومیں آگے بڑھ جاتی ہیں، اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں اور ہم سیکھتے ہیں، ہم بار بار پھنس جاتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا، پچھلے 30 سال سے اسی صورتحال کا سامنا ہے اور نتیجہ صفر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ خطہ دنیا کا وہ حصہ ہے جو بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے، آپ کے لئے ہندوستان بڑا ملک ہے، بڑا جی ڈی پی ہے، شرح نمو بہتر ہے، ہندوستان کو امن سے فائدہ ہو سکتا ہے، پاکستان بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے بعد بھارت کی طرف سے مثبت ردعمل آئے گا، میں ماضی کا جوابدہ نہیں، میرے ساتھ اگر معاہدہ کریں تو میں یہ نہیں کہوں گا کہ فوج نے یہ کام نہیں کرنے دیا، پاکستان کی فوج، ادارے، سیاسی قیادت اور حکومت ایک صفحہ پر ہیں اور سب کا اس حوالہ سے اتفاق رائے ہے، تین ماہ کے اقتدار کے دوران ہماری کوشش رہی ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ اپنے حالات بہتر کریں۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ بھارتی شہری حامد انصاری کے معاملہ کو فوری دیکھیں گے اور اس حوالہ سے جو بہتر ہوا وہ کیا جائے گا۔ پاکستان خود چاہتا ہے کہ وہ آگے بڑھے، آگے تب ہی بڑھ سکتے ہیں جب ہم اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلہ کو علاقہ کی بجائے اور طریقہ سے دیکھا جائے کیونکہ یہاں جو ہم دیکھتے ہیں کشمیر میں بچے ہیں، وہاں جس طرح کے حالات چل رہے ہیں، 20، 25 سال سے فوجی حل چل رہا ہے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، ہر ملک میں آپ کے ساتھ بھی ہوتے ہیں اور خلاف بھی ہوتے ہیں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ آتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں ہر روز لاشیں اٹھ رہی ہیں، عورتیں رو رہی ہیں، لوگ مر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کم از کم کشمیر کے لوگوں کے لئے تو کچھ کرے، وسیع تر خیرسگالی کیلئے دونوں طرف سے کوشش ہونی چاہئے، ہم یکطرفہ خیرسگالی کرتے رہے۔ مجھے تب بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے کہا کہ آپ نے بڑی کوشش کی اور ہندوستان نے یہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس بات کو پھر دہراتے ہیں کہ یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ ہماری سرزمین سے کسی قسم کی دہشت گردی نہ ہو۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات