گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے ہندوستان کی دیرینہ خواہش علاقائی استصواب رائے کو تقویت ملے گی، سردار عتیق احمد خان

�اکھ کشمیری شہداء کی قربانیاں تقسیم کشمیر کیلئے نہیں ہیں،8ماہ کی بچی سے لیکر 8سال کی بیٹی کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دینگے،پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بجائے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی، سیاسی، انتظامی، مالیاتی اختیارات اور سی پیک میں حصہ دے، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر

ہفتہ 1 دسمبر 2018 15:10

�سلام گڑھ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 دسمبر2018ء) سابق وزیر اعظم آزاد کشمیرو صدر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے ہندوستان کی دیرینہ خواہش علاقائی استصواب رائے کو تقویت ملے گی۔6لاکھ کشمیری شہداء کی قربانیاں تقسیم کشمیر کے لئے نہیں ہیں۔8ماہ کی بچی سے لیکر 8سال کی بیٹی کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بجائے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی،سیاسی،انتظامی،مالیاتی اختیارات اور سی پیک میں حصہ دے۔ہم گلگت کے لوگوں کی حمایت اور داخلی خودمختاری چاہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے اسلام گڑھ جرنلسٹ فورم کے صحافیوں کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر اسلام گڑھ جرنلسٹ فورم کے صدر عبدالحمید کشمیری،سابق صدر جرنلسٹ فورم خالد محمودمغل،سینئر صحافی وپاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے مرکزی نائب صدر راجہ عمر فاروق،سیکرٹری اطلاعات جرنلسٹ فورم شیخ صابر حسین،رابطہ سیکرٹری جرنلسٹ فورم نگاہ کرم نقوی،نائب صدر جرنلسٹ فورم راجہ عمران اختر،سابق امیدوار اسمبلی سائیں ذولفقار علی چوہدری،ممبر مجلس عاملہ باوا محمد شریف،علی اصغر ممبر،چوہدری افتخار بوٹا،مسلم لیگ ن برطانیہ کے رہنما راجہ عرفان،ٹھیکیدار چوہدری سلیمان،عاکف فاروق ایڈووکیٹ،راجہ محمد فاروق،چوہدری رخسار،سابق چیرمین ذکواة ٹھیکیدار چوہدری صابر کے علاوہ عوام علاقہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔

سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان اپنے تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی تمام مسائل کی جڑ ہے۔ہندوستان پہلے مسئلہ کشمیر کو علاقائی سطح پھر اقوام متحدہ میں لیکر گیا اور اسے بین الاقوامی مسئلہ بنایااور جب اقوام متحدہ نے فیصلہ دیا کہ ریاست جموں وکشمیر میں استصواب رائے کرایا جائے تو بھارت مکر گیا اور استصواب رائے سے انکار کر دیا۔

ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی بدولت مسئلہ کشمیر نے طول پگڑا۔آزادی کے عمل میں مسلم لیگ ،کانگرنس اور برطانیہ کے رہنما شامل تھے۔16اگست 1947کو سری نگر اور جموں میں ڈاکخانوں اور مواصلات کی عمارتوں پر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا اور 26اکتوبر تک یہ سلسلہ جاری رہا جس کے بعد 27اکتوبر کو ہندوستان نے ریاست جموں وکشمیر میں فوجیں اتاریں اور عسکری ماحول کی بنیاد رکھی۔

اس وقت سے لیکر اب تک ہندوستان نے سند طاس ،شملہ،تاشقند معاہدوں سے انخراف کیا۔تمام چیزوں کو ایک تسلسل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان علاقائی استصواب رائے کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے جس کے لئے لداخ کو صوبہ اور جموں کے کچھ علاقوں کو ہندوستان میں مدخم کرنا چاہتا ہے اور ہمارے پاکستان کے حکمرانوں کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کبھی ایک اور کبھی دوسرا گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لئے کوشاں ہے۔

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا کام سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو نے شروع کیا اور یہ بات پیپلز پارٹی کے منشور میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے گلگت بلتستان وآزاد کشمیر کے چار روزہ دورے کے دوران مسلم کانفرنس اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے بھرپور مخالفت کی۔مسلم لیگ کے دور حکومت میں محمد خان جنیجو نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوشش کی تو اس وقت سردار عبدالقیوم خان نے استعفیٰ دے دیا تھا ۔

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے خلاف وزیر امور کشمیراور وزیر خارجہ پاکستان سے تفصیلابات ہوئی ۔حکومت پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ موخر ہوا ہے لیکن ٹلا نہیں ہے۔کشمیریوں کو مذید کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے کہا کہ ہندوستان سری نگر میں چھ لاکھ ہندو خاندانوں کو آباد کرنا چاہتا ہے اور صرف سری نگر میں ڈیڑھ سو ارب روپے خرچ کر کے سری نگر سے ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکا ہے۔

ہندوستان کی طرح پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں آزاد کشمیر میں غیر ریاستی افراد کو زمینیں آلاٹ کرنا شروع کیں لیکن مسلم کانفرنس نے اس کی شدید مخالفت کی۔پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کا40سے 50 ووٹ بھی ختم کرنے کی سازش کی گئی اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مذید 15لاکھ سے زائد ووٹ متاثر ہوسکتے تھے۔ہم اپنے خلاف آبادی کا تناسب خود بگاڑ رہے ہیں۔

سردار عتیق احمدخان نے مذید کہا کہ حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بجائے وہاں کے عوام کو آئینی،سیاسی،انتظامی،مالیاتی اختیارات دے،بنک لوگوں کو قرضے دیں۔جنگلات کی کٹائی رکوائیں۔گلگت بلتستان میں فیکٹریاں اور انڈسٹریاں لگائیں تا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو روزگار کے مواقع ملیں۔گلگت بلتستان میں اربوں روپے مالیت کی قیمتی جڑی بوٹیاں موجود ہیں جن کے لئے وہاں طبی کالج بنائے جائیں ،صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

قیمتی پتھر کونکالنے کے لئے مقامی سطح پر ایک کارخانہ ہی اگر لگ جائے تو گلگت بلتستان حکومت کا بجٹ وہاں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں سری نگر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمتیں دیں۔انہوںنے کہا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے اپنی زمینوں کی قربانیاں دینے والے گلگت بلتستان کے عوام کو متبادل زمین فراہم کی جائے اور انہیں ان کی زمینوں کا معاوضہ بھی دیا جائے۔