سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان سے متعلق حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ طلب کرلیا

حکومت کے پاس ترامیم کیلئے اکثریت نہیں، ترمیم نہیں کرسکتے تو سفارشات پر عمل درآمد کردیں ،ْ چیف جسٹس گلگت بلتستان پر عوام کو تمام آئینی حقوق حاصل ہوں گے، لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے ،ْ فنڈز بھی بحال کیے جائیں گے ،ْ اٹارنی جنرل گلگت بلتستان کی حیثیت کے بارے میں قانون سازی میں وقت لگے گا ،ْ گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں 3 نشستیں دی جائیں گی ،ْ عدالت میں وفاقی کا جواب پڑھ کر سنایا یہ بہت حساس معاملہ ہے، احتیاط کی ضرورت ہے، ریاست پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں نا کریں ،ْ جسٹس عظمت سعید شیخ بنیادی چیز یہ ہے گلگت بلتستان کے لوگوں کو زیادہ حقوق ملنے چاہیے، عدالتی فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان پر کوئی قانون نافذ ہو گا ،ْ اعتزاز احسن علاقے کو پورے حقوق کیساتھ عارضی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، آئین میں ترمیم کی بجائے قانون بنایا جاسکتا ہے ،ْ عدالتی معاون گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق اور آزاد عدلیہ کی فراہمی یقینی بنایا جائیگا ،ْپارلیمنٹ کو ہدایت نہیں دے سکتے، مسودے کو زیرغور لانے کا کہہ سکتے ہیں ،ْعدالت عظمیٰ

پیر 3 دسمبر 2018 19:54

سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان سے متعلق حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان سے متعلق وفاقی حکومت کی مجوزہ قانون سازی کا مسودہ جمعہ کو طلب کرلیا۔ پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران اٹارنی جنرل اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آئین میں ترامیم کا معاملہ ہے، حکومت کے پاس ترامیم کے لیے اکثریت نہیں، ترمیم نہیں کرسکتے تو سفارشات پر عمل درآمد کردیں۔اس دوران اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کا جواب پڑھ کر سنایاجس میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان پر عوام کو تمام آئینی حقوق حاصل ہوں گے، لوگوں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے اور فنڈز بھی بحال کیے جائیں گے تاہم گلگت بلتستان کی حیثیت کے بارے میں قانون سازی میں وقت لگے گا جبکہ گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں 3 نشستیں دی جائیں گی۔

(جاری ہے)

جواب میں بتایا گیا کہ سرتاج عزیز کمیٹی نے سفارشات مرتب کی ہیں جس کے مطابق گلگت بلتستان میں ججوں کی تعیناتی کے لیے شفاف طریقہ کار بنایا جائے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی کی سفارش کے مطابق گلگت بلتستان عدالتوں کا بجٹ جی بی کونسل کو دیا جائے تاہم گلگت بلتستان آرڈر میں سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو حصہ نہیں بنایا گیااس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تمام سفارشات سرتاج عزیز کمیٹی کی ہیں، درخواست گزار کہتا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے۔

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گلگت بلتستان آرڈرابھی نو ٹیفکیشن ہے، کیا آپ اس نوٹیفکیشن کی منظوری لے سکتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے کابینہ پھر پارلیمان میں جائیگا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مثالی صورتحال تو یہ ہوگی کہ آئین میں ترامیم کی جائے جس پر عدالتی معاون سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آئین کے تحت گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

سلمان اکرم راجہ کے جواب پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اس کے بین الاقوامی اثرات کیا ہوں گی جس پر انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں نافذ قانون وزیر اعظم کا انتظامی حکم نامہ ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ،ْ اس پر چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے روسٹرم پر کھڑے ہو کر اس طرح کی باتیں نا کریں، انہیں دوسرے درجے کا شہری مت کہیں اور اپنے الفاظ واپس لیں جس پر سلمان اکرم راجا نہ کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے وہی حقوق ہیں جو پاکستانی شہری کے ہیں ،ْانھیں دوسرے درجے کا شہری نہ کہا جائے۔اس دوران جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے، احتیاط کی ضرورت ہے، ریاست پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں نا کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں ترمیم تو ممکن نہیں، سادہ الفاظ میں بتائیں چاہتے کیا ہیں جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 2009 اور 2018 کے انتظامی آرڈر آئین کے تحت نہیں ہیں۔

اس پر عدالتی معاون اعتزاز احسن نے کہا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو زیادہ حقوق ملنے چاہیے، عدالتی فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان پر کوئی قانون نافذ ہو گا، اس قانون کا درجہ پہلے سے نافذ قانون سے بلند ہونا چاہیے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام بلا شک شبہ پاکستان کے شہری ہیں، بین الاقوامی سطح پر کوئی تنازع ہوگا جس پر جسٹس عظمت سعیدشیخ نے کہا کہ اس معاملے پر حد سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، بین الاقوامی طور پر جن عدالتوں میں استصواب رائے ہوتا ہے ، وہاں کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سوال کیا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر کیا موقف ہی جس پر انہوں نے جواب دیا کہ انتظامی طور پر یہ علاقہ پاکستان میں آتا ہے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ اس علاقے کو پورے حقوق کے ساتھ عارضی صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے، آئین میں ترمیم کی بجائے قانون بنایا جاسکتا ہے۔اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق کا مکمل تحفظ کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں گلگت بلتستان کے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ہے، وہاں کے لوگوں کے پاس پینے کا پانی نہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق اور آزاد عدلیہ کی فراہمی یقینی بنایا جائیگا ،ْپارلیمنٹ کو ہدایت نہیں دے سکتے، تاہم مسودے کو زیرغور لانے کا کہہ سکتے ہیں، گلگت بلستان کو لوگوں کو پورے حقوق دیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں گلگت بلتستان کے لوگوں کو قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نشستیں ملیں یہ حق آئینی ترمیم کے بغیر کیسے مل سکتا ہی ، کیا ہم مقننہ کو قانون سازی کا کہہ سکتے ہیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ حکومت تو قانون سازی کرنے کیلئے تیار ہے، ساتھ ہی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنایا جا سکتاہے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومتی ڈرافٹ تیاری کے مراحل میں ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حکومت 2 روز میں مسودہ تیار کرسکتی ہے۔عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی تو بہت سی تبدیلیاں ہوں گی لہٰذا ایک ہفتے کی مہلت دی جائے تو مسودہ دینے پر اعتراض نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مشترکہ مسودہ بن کر آ جائے تو اسکو حکم کا حصہ بنا دیں گے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ جمعہ کو مسودہ لے آئیں، اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو بعد میں کر دیں گے۔بعد ازاں عدالت نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے متعلق کیس کی سماعت جمعے تک ملتوی کردی۔