Live Updates

قوم فیصلہ کرے کہ کیا کرپشن کا نظام چلنے دینا ہے، اگر یہ نظام برقرار رہا تو ملک کی ترقی ممکن نہیں، میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے، کرپشن کے خلاف جنگ ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے، نیب اگر میرے ماتحت ہوتا تو پچاس بڑے کرپٹ لوگ آج جیلوں میں ہوتے، بڑے لوگوں کو پکڑیں گے تو نیچے خود ٹھیک ہو جائے گا، قرض چھ ہزار سے تیس ہزار ارب روپے تک پہنچانے والوں کا پہلے احتساب کریں گے، 100 دن میں سمت کا تعین ہوتا ہے، میں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، ملک کا ایک ایک ادارہ نقصان میں ہے

سٹیٹ بینک خود مختار ادارہ ہے، روپے کی قدر گرنے کا پتہ خبروں میں چلا، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر دبائو کا شکارہیں، مستقبل میں اقتصادی اشاریے بہترہونے جا رہے ہیں، منی لانڈرنگ پر سخت قوانین بنا رہے ہیں، کسی کو تحفظ دینے کیلئے مداخلت نہیں کریں گے، بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے میری بہن کا نام آ رہا ہے، میں نے کسی سطح پر مداخلت نہیں کی، سینیٹ میں موجود دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت پر کیس ہیں، قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے کریں گے، کشمیر کے مسئلے کا حل مرحلہ وار اور مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پوری کوشش کریں گے، بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ وقت سے پہلے انتخابات ہوں، کپتان اپنی حکمت عملی کسی بھی وقت بدل سکتا ہے وزیراعظم عمران خان کی اینکرپرسنز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو

منگل 4 دسمبر 2018 00:10

ش* اسلام آباد ۔ 3 دسمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2018ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قوم فیصلہ کرے کہ کیا کرپشن کا نظام چلنے دینا ہے، اگر یہ نظام برقرار رہا تو ملک کی ترقی ممکن نہیں، میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے، کرپشن کے خلاف جنگ ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے، نیب اگر میرے ماتحت ہوتی تو بڑے بڑے پچاس کرپٹ لوگ آج جیلوں میں ہوتے، بڑے لوگوں کو پکڑیں گے تو نیچے خود ٹھیک ہو جائے گا، جس سطح پر کرپشن ہوئی ہے یہ ساری چیزیں سامنے آ رہی ہیں تاہم جب تک کیس تیار نہیں ہو گا ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے، پارلیمنٹ میں جس قسم کی زبان استعمال ہوتی ہے اور جو رویہ اپوزیشن کا ہے وہ مجھ سے یہ بات سننا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کیلئے ہم سب اکٹھے چلیں، پرامن افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پوری کوشش کریں گے، بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں، ہو سکتا ہے کہ وقت سے پہلے انتخابات ہوں، کپتان اپنی حکمت عملی کسی بھی وقت بدل سکتا ہے، چھ ہزار سے قرض تیس ہزار ارب روپے تک پہنچانے والوں کا پہلے احتساب کریں گے جو ملک کو نقصان پہنچاتا ہے اور قانون کو توڑتا ہے اس کو جواب دہ ہونا ہو گا۔

(جاری ہے)

پیر کو وزیراعظم عمران خان نے اینکرپرسنز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنسر شپ بری چیز ہے، اطلاعات کو وہ چھپاتا ہے جسے خوف ہو، جمہوریت میں شفاف ہونا ضروری ہے، پارلیمنٹ اور آزاد میڈیا چیک اینڈ بیلنس کیلئے ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت سب سے زیادہ شفاف ہو، یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ مجھ سمیت وزراء پر چیک اینڈ بیلنس ہو، اگر کوئی وزیر غلط کام کرے تو چاہتا ہوں کو اسے سامنے لایا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے سارے وزراء سے کارکردگی رپورٹ منگوا لی ہے ، اس ہفتے اس کا جائزہ لوں گا، ہو سکتا ہے کہ جن وزراء کی کارکردگی صحیح نہ ہو انہیں تبدیل کر دیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ منی لانڈ رنگ کے حوالے سے اس ہفتے سخت قانون لا رہے ہیں، کسی حکومت کو ایسے حالا ت نہیں ملے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ بہت زیادہ ہے، غیر ملکی سرمایہ کار دیکھتے ہیں کہ ملک میں سرمایہ کاری پر کتنا منافع مل رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 100 دن میں سمت کا تعین ہوتا ہے، میں نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، ملک کا ایک ایک ادارہ نقصان میں ہے، کوئی ایک ادارہ منافع بخش نہیں، پاور سیکٹر میں 1200 ارب روپے سے زائد کا سرکلر ڈیٹ گزشتہ حکومت چھوڑ کر گئی، پاکستان کے جو حالات ہیں اس میں 100 دن کی کارکردگی زبردست ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم وہ نظام چاہتے ہیں جو نچلے طبقے کیلئے ہو، اب تک تعلیم اور صحت کا نظام بڑے طبقے کیلئے تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب وہ جیل میں تھے تو جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ یہاں آدھے لوگ بے قصور ہیں، ہم پہلی دفعہ لیگل ایڈ اتھارٹی قائم کر رہے ہیں، حکومت غریبوں کو مفت قانونی سہولت مہیا کرے گی، ہم عوام کو صحت کارڈ دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ میں ڈیری اور پولٹری معیشت کا بڑا حصہ ہے، ہمارے ہاں اصل غربت دیہات میں ہے، دیہات میں چھوٹے کسان اور خواتین کو آگے لایا جا سکتا ہے، حلال فوڈ میں پاکستان دنیا سے بہت پیچھے ہے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ اداروں کو مضبوط کریں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت 19 ارب ڈالر کا خسارہ دے کرگئی ہے، جب ن لیگ کی حکومت آئی تو اڑھائی ارب ڈالر کا خسارہ تھا، پچھلی حکومت نے روپے کی قدر مستحکم رکھنے کیلئے ایک سال میں سات ارب ڈالر خرچ کئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سٹیٹ بینک خود مختار ادارہ ہے، روپے کی قدر گرنے کا پتہ خبروں میں چلا، اداروں کو مضبوط ہونا چاہئے، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر دبائو کا شکارہیں، مستقبل میں اقتصادی اشاریے بہترہونے جا رہے ہیں، برآمدات میں ابھی سے اضافہ ہو رہا ہے، ملکی محصولات میں اضافہ ہو رہا ہے، سرمایہ کاری کیلئے بڑے ادارے آ رہے ہیں، چین پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، ملک کو آگے لے جانے کیلئے سرمایہ کاری اہم ہے، چین نے بھی ترقی کیلئے سرمایہ کاری پر کام کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ پر سخت قوانین بنا رہے ہیں، ہرسال 10 ارب ڈالر منی لانڈرنگ کی نظر ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھر میں اب منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے قوانین آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہے کہ ہولڈنگ کمپنی کے ذریعے اداروں کو پیشہ وارانہ انداز میں چلایا جائے، گزشتہ حکومت ملک کو خراب حالات دے کرگئی، آئندہ دنوں میں پاکستان میں استحکام دیکھیں گے، کسی ادارے میں مداخلت نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ میرے پاس ہے اور سی ڈی اے اس کا ماتحت ادارہ ہے اور وہ میرے بنی گالہ گھر کی رپورٹ دے رہا ہے، ماضی میں ایسی مثال نہیں ملتی، کسی جے آئی ٹی پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، بابر اعوان پر ریفرنس آیا تو انہوں نے خود استعفیٰ دے دیا، میں نے اپنے گھر کیلئے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، کسی کو تحفظ دینے کیلئے مداخلت نہیں کریں گے۔

اعظم سواتی کے معاملے پر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کریں گے، اگر اعظم سواتی کی غلطی ہوئی تووہ خود استعفی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی کے حوالے سے تحقیقات سی ڈی اے کر رہی تھی کیا میں ان کو نہیں روک سکتا تھا، سپریم کورٹ میں پانامہ کیس آنے پر ہر ادارے نے کہا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے، صرف ایک ادارے نے جے آئی ٹی میں حکومت کی بات نہیں مانی، اسی لئے وہ اس کیخلاف ہو گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کا چیف ایگزیکٹو ہے، جب ان تک یہ خبر پہنچی کہ بشریٰ بی بی کی بیٹی کے ساتھ پولیس نے ناروا رویہ اختیار کیا ہے تو کیا وہ پولیس سے اس زیادتی کا نہیں پوچھ سکتے تھے، پنجاب کو اس سے پہلے ایسا وزیراعلیٰ نہیں ملا، وزیراعلیٰ پنجاب کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب عوام کیلئے ہر وقت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بڑے زبردست کام بھی کئے ہیں تاہم مجھے زلفی بخاری کے مقدمے میں ریمارکس سن کر افسوس ہوا کہ انہوں نے مجھ پر اقرباء پروری کی بات کی، میں دس سال پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا، نمل یونیورسٹی بنائی، خیبر پختونخوا میں پانچ سال حکومت کی ، مجھے بتایا جائے کہ کسی جگہ میں نے پسند یا نہ پسند یا اقرباء پروری کی۔

انہوں نے کہا کہ کسی ادارے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی، بیرون ملک جائیداد کے حوالے سے میری بہن کا نام آ رہا ہے، میں نے کسی سطح پر مداخلت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ آئی جی پنجاب نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ادارے بننے چاہئیں، اداروں کو آزادانہ طور پر چلانے کیلئے بورڈ بننے چاہئیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 1970ء کے بعد 22 دولت مند خاندانوں کا کلچر بن گیا، جو کوئی بھی ان کے علاوہ آتا اسے ٹیکس سمیت ہر محکمہ تنگ کرتا، سیاسی کلاس انتخابات سے پہلے ان سے پیسے مانگتی، حکومتی اداروں میں بھی یہ کلچر ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہو اس سے پیسے مانگتے ہیں، مہاتیر محمد نے کہا کہ اپنے تاجروں کی مدد کریں، ایک سرمایہ کاری دوسری سرمایہ کاری لے کر آتی ہے، کاروبار میں آسانی کے حوالے سے پاکستان بہت پیچھے ہے۔

میں ساری کاروباری برادری سے ملا ہوں، ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ایسا ماحول بنایا جائے کہ سرمایہ کار کو منافع ملے، سب کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ کاروبار کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے آفس قائم کیا جا رہا ہے۔ ماحول نہ ہونے سے سب سے زیادہ ایس ایم ایز کو نقصان ہوتا ہے۔ ہماری پالیسی ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو کاروبار کیلئے آسان ہو، سرمایہ کاروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ملک میں چھوٹی اور درمیانی صنعتیں ختم ہو گئی ہیں، کاروبار میں آسانی پیدا کرنا بڑی کامیابی ہو گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس پالیسی اور ٹیکس جمع کرنے کو الگ الگ کر دیا ہے، ہماری برآمدات بھی اسی وجہ سے گریں، ایف بی آر کا کام ٹیکس اکٹھا کرناہے، پالیسی بنانا کامرس اور خزانہ کا کام ہے، پاکستان میں صنعتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قوم یہ فیصلہ کرے کہ کیا ہم نے بدعنوانی کا نظام چلنے دینا ہی اگر یہ نظام چلنے دینا ہے تو ترقی ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن ممالک میں کرپشن زیادہ ہے وہاں غربت زیادہ ہے اور جن ممالک میں ترقی ہو رہی ہے وہاں کرپشن نہیں ہے۔ جہاں زندگی بہتر ہے وہاں بدعنوانی نہیں ہے، چین معاشی سپر پاور بن رہا ہے، چین نے پانچ سال میں بدعنوانی پر 400 وزیروں کو فارغ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری کسی سے ذاتی لڑائی نہیں، یہ ملک کے مستقبل کیلئے اہم ہے، کرپٹ سسٹم میں فائدہ لینے والے حکومت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

1960ء کی دہائی میں پاکستان کا گورننس سسٹم بہت اچھا تھا پرانی سوچ کے بیورو کریٹس موجودہ سسٹم سے اربوں روپے کے مالک بن گئے ہیں، اسی لئے وہ سسٹم کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب میرے ماتحت ہوتا تو 50 بڑے بدعنوان جیل میں ہوتے، ہم نے کوئی نیا کیس نہیں بنایا، پرانے کیسز چل رہے ہیں، بڑے لوگوں کو بدعنوانی میں پکڑیں نیچے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ نیب چھوٹے چھوٹے کاروباری طبقات سمیت مختلف جگہوں پر کارروائیاں کر رہا ہے تاہم ان کے پاس اتنی افرادی قوت نہیں کہ وہ ان پر قابو پا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے ان کے ماتحت ہے اس کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہم تجاوزات میں کھربوں روپے کی زمین واگزار کرا چکے ہیں، سب کو پتہ ہے کہ ہم نے یہ احکامات دیئے تھے کہ کسی غریب کا گھر نہیں گرانا۔

بڑے بڑے مافیاز کے پیچھے جانا ہے تاہم بڑے مافیاز کے کہنے پر غریبوں کے گھر گراتے ہیں، میڈیا پر عورتیں بچے روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ مافیا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ بیورو کریسی میں رکاوٹ بننے والوں کا صفایا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کرپشن کے حوالے سے جو چیزیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں کہ کس سطح پر کرپشن ہو رہی ہے مجھے بھی اس کا علم نہیں تھا۔

یہ ساری چیزیں جب جب سامنے آ رہی ہیں تو اپوزیشن کو خوف ہے کہ وہ پکڑے جائیں گے، ان کے پاس وکیل زبردست ہیں۔ جب تک کیس تیار نہیں ہو گا ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے حکومتیں آتی تھیں تو وہ سرکاری اداروں میں اپنے لوگ لاتے تھے، ہم حکومت میں نہیں رہے اس لئے ہماری کوئی ٹیم نہیں، ہم نے اپنی ٹیم بنانی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے 26 ملکوں سے معاہدے کئے ہیں، شہریوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کے معاہدے کئے گئے، 26 ملکوں سے اب تک پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالر کے اکائونٹس ملے ہیں، دبئی اور سعودی عرب میں اقامہ ہولڈر کی تفصیل نہیں دی گئی، اب معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے اقامے کیوں بنائے تھی اس کے ذریعے منی لانڈ رنگ کرنی تھی۔

اقامے لے کر یہ دبئی اور سعودی عرب کے شہری تصور ہوئے۔ وہاں سے انہوں نے پیسے لندن، سوئٹزرلینڈ اور ترکی بھجوائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تین دن پہلے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ معاہدہ کیا، سوئٹزرلینڈ سے پانچ سال پہلے کی تفصیل دستیاب ہو گی۔ پانامہ کے بعد سوئٹزرلینڈ سے اکائونٹس منتقل ہوئے ہیں اس لئے ہم نے پانچ سال پرانی معلومات مانگی ہیں، پاکستانیوں کے اربوں ڈالر غیر قانونی طور پر باہر پڑے ہیں، سیاستدانوں کے ڈرائیوروں کے دبئی میں پانچ پانچ گھر ملتے ہیں، ایک بار ہمیں تمام تفصیلات مل جائیں تو اس کے بعد کارروائی کر سکتے ہیں۔

قانون کی وجہ سے بھی تاخیر ہے ، اگر اسی طرح ہم نے کارروائی کی تو یہ بچ جائیں گے، بیرون ممالک سے پاکستانیوں کی جائیدادوں کی تفصیلات آ رہی ہیں، بدعنوانی سے کمایا پیسہ ملک میں واپس آئے گا، قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ ڈالروں کی کمی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ 30 سالوں میں پاکستان 16 دفعہ آئی ایم ایف کے پاس گیا جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت اس دوران صرف ایک بار آئی ایم ایف کے پاس گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم گورننس سسٹم ٹھیک کر رہے ہیں، پاکستان کی جغرافیائی سٹرٹیجک اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایگزون کمپنی زیر سمندر گیس ذخائر کے حوالے سے آئندہ جون تک تفصیلی رپورٹ دے گی۔ انہوں نے ملاقات میں بتایا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ زیر سمندر گیس کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستان کی پچاس سال تک ضروریات پوری کر سکتی ہے، پاکستان میں بے پناہ وسائل ہیں، پاکستان کے پاس گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔

وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی اے سی کا پارلیمنٹ کی طرف سے احتساب ہوتا ہے، اپوزیشن شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین بنانا چاہتی ہے، شہباز شریف پر کیسز چل رہے ہیں، وہ جیل سے آ کر پی اے سی کے چیئرمین بنیں گے تو دنیا میں پاکستان کا مذاق بنے گا ہم نے انہیں پیشکش کی ہے کہ کسی اور کو بنا دیں اس پر وہ باقی قائمہ کمیٹیوں کا بھی بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں، اس طرح وہ ہمیں بلیک میل کرنا چاہتے ہیں، ان کی پہلے دن سے یہی پالیسی ہے کہ وہ ہم پر دبائو ڈالیں تاکہ ہم انہیں این آر او دے دیں، دس سال تک ملک کو میثاق جمہوریت کے نام پر لوٹا گیا۔

یہ قوم کے مجرم ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اندر جو ہو رہا ہے اس کا مقصد دبائو ڈالنا ہے، ہم انتخابات جیت کر آئے ہیں، انتخابات کے حوالے سے سب نے کہا کہ بہترین الیکشن ہوئے۔ پہلے دن انہوں نے مجھے اسمبلی میں تقریر نہیں کرنے دی جبکہ ہم نے انتخابات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا پہلے دن سے کہا۔ یہ مان گئے لیکن ایوان میں آ کر پھر احتجاج شروع کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں جس طرح کی زبان وہ استعمال کر رہے ہیں یہ مجھ سے یہ سننا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کیلئے ہم سارے اکٹھے ہو کر چلیں گے، وہ احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے، مجھے کوئی خوف اور ڈر نہیں، ادا رے اپنے طورپر کام کر رہے ہیں، پاک فوج تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمسایوں سے امن کے حوالے سے وہ ہمارے ساتھ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ حکمران بھارت کے حوالے سے یہ کہتے تھے کہ ہم ایک ہیں تاہم پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے۔ ہندوستان پاکستان دو الگ ممالک ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت نہ کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملکی قرضے 6 کھرب سے 30 کھرب تک پہنچ چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرتارپور کے حوالے سے ہمارے ساتھ پوری قوم کھڑی ہے، کرتارپور میں سکھوں کے چہروں پر بے پناہ خوشی دیکھی، یہ اقدام ہماری حکومت کا مستقبل کا منصوبہ ہے ، اس سے تجارت بڑھے گی، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، ہمیں کسی معاملے میں فریق نہیں بننا چاہئے، یمن کے معاملے پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ایران کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کی ثالثی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ٹرمپ کے ٹویٹ کے جواب کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کا خط آیا کہ پاکستان افغانستان میں کردار ادا کرے، پہلے بھی کہتا تھا کہ جنگ سے افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، میں مغرب کی سوچ کو سمجھتا ہوں، یہ بادشاہت کا نہیں جمہوری نظام ہے، افغانستان میں کردار کے حوالے سے امریکی صدر کا خط مثبت اقدام ہے، افغانستان میں بہتر حالات سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔

ہم نے ماضی سے سیکھا ہے ہم کردار ادا کر سکتے ہیں، امریکہ کی جنگ میں دو دفعہ فریق بن کر اپنا نقصان کیا۔ میں جب یہ کہتا تھا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں تو مجھے طالبان خان کے القابات دیئے جاتے تھے آج سارے یہی کہہ رہے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے مفاد کیلئے کھڑے ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ملائیشیا سے بہترین سرمایہ کاری آ رہی ہے، اسی لئے انہوں نے وہاں کا دورہ کیا۔

وہ ان سے مشورہ بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ باہر کے دورے تب کروں گا جب اس کا فائدہ ہو، امریکہ یا اقوام متحدہ میں جا کر تقریر کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ ان کو ہمارے معاشی حالات کا علم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مقصد تک پہنچنے کیلئے حکمت عملی بدلنا پڑتی ہے، وہ لیڈر نہیں جو منزل تک پہنچنے کیلئے یوٹرن نہ لیتا ہو، یو ٹرن دراصل سمجھوتہ اور مقصد تک پہنچنے کیلئے ہوتا ہے، تاہم مقصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جو پالیسی بنا رہے ہیں جب تک ان کے حکومتی اتحادی اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے اتحاد چلتا رہے گا۔ میری پالیسی ہے کہ احتساب سب کا ہوگا۔ میں نے انتخابات سے پہلے یہ کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے اتحاد نہیں کروں گا، ان سے اتحاد کرتا تو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اپنے موقف سے ہٹنا پڑتا۔ اسٹیبلشمنٹ سے پالیسی سازی میں مشاورت کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیکورٹی معاملات پر مشاورت ضروری ہوتی ہے، امریکہ جیسی بڑی جمہوریہ میں بھی پالیسی سازی میں پینٹاگون کا کردار ہے ۔

اوباما باربار افغان جنگ سے نکلنا چاہتے تھے تاہم پینٹاگون نے انہیں روکے رکھا۔ جہاں دبائو ہو وہاں اسٹیبلشمنٹ سے رائے لینا پڑتی ہے جو معلومات ان کے پاس ہوتی ہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہوتیں، پاک فوج جمہوری حکومت کے ساتھ ہے، تمام فیصلے میں خود کر رہا ہوں، ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں جس کے پیچھے فوج نہ کھڑی ہو۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، سارے فیصلے مشاورت سے ہو رہے ہیں ، ہر فیصلہ میرا ہے اور کوئی فیصلہ ایسا نہیں جس کے پیچھے فوج نہ کھڑی ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ہر قسم کی مدد کرنا چاہتے ہیں، بلوچستان میں بھارت کی مداخلت ہے ، اختر مینگل کے مطالبات پر فوج سے مشورہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کئی لوگوں کو تفتیش کے بعد چھوڑ دیا ہے، اختر مینگل کی ملاقات کا بھی اہتمام کروایا تاہم کسی وجہ سے وہ ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات سے مسائل کا حل ممکن ہے، کوئی عقل مند آدمی جنگ کا نہیں سوچ سکتا، دو جوہری ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہو سکتی، مذاکرات میں دوقوموں کے درمیان بات ہوتی ہے۔

وزیراعظم سے جب مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھارت کے دورہ کے موقع پر نٹور سنگھ اور واجپائی نے انہیں بتایا کہ جنرل مشرف کے دور میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے قریب آ گئے تھے اگربی جے پی انتخابات نہ ہارتی تو اس مسئلے کا حل ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہے، اپریل میں بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں، انتخابات تک بھارت بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، انتخابات میں وہ پاکستان مخالف جذبات کو مہم میں استعمال کرتے ہیں۔

کرتارپور بارڈر کھولنے کے بعد پاکستان سے نفرت کرنا آسان نہیں، وہاں پر میری تقریر پورے بھارت میں براہ راست دیکھی گئی۔ ہم نے انہیں مذاکرات کی پیشکش کی ان کیلئے اب ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل مرحلہ وار اور مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فضل الرحمان نے حکومت کیخلاف ہی بولنا ہے، خیبر پختونخوا میں شکست کے بعد فضل الرحمان ہمارے خلاف ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان سے ہر طرح کی بات کرنے کی کوشش کی، وہ پہلے گستاخانہ خاکوں پر احتجاج کیلئے آنے لگے تھے تاہم ہم نے ہالینڈ کے وزیر سے خود ہی بات کی، گستاخانہ خاکوں کا معاملہ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں اٹھایا، ہم نے کسی کے دبائو میں نہیں بلکہ خود سے یہ اقدامات کئے، نبی اکرم ؐ سے عشق ایمان کا حصہ ہے۔

پہلی بار یورپ میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں نبیؐ کی شان میں گستاخی نہیں کی جا سکتی، ہم ایک اور کنونشن لانے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سلمان رشدی کے بھارت آنے پر وہاں دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی، چار یورپی ممالک میں یہ قانون ہے کہ ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے والوں کو جیل میں ڈالا جاتا ہے، تو ہمارے نبی ؐ کی شان میں گستاخی کیسے اظہار رائے کی آزادی ہو سکتی ہے۔

ٹی ایل پی کی جانب سے ہمیں یہودی اور قادیانی کہا گیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا جبکہ حملہ ہمارے اوپر کیا گیا۔ ریاست کہیں نہ کہیں تو سٹینڈ لیتی ہے۔ جو سیاسی لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں ان کو اپنی چوری کی پڑی ہوئی ہے، جو بھی ریاست کیخلاف کام کرے گا اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کوئی بھی نبیؐ کا سپاہی بن کر کھڑا ہو جائے تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے گی، نبیؐ کے عشق کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں موجود دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کے اوپر کیس ہیں، ان سے تصفیہ کیسوں میں ان کی مدد ہوسکتی ہے، قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سول مقدمات ایک سے ڈیڑھ سال میں نمٹانے کیلئے قانونی سازی کر رہے ہیں، وسل بلور ایکٹ لا رہے ہیں۔ خواتین اور بیوائوں کیلئے خصوصی قانون لا رہے ہیں۔

جنوبی پنجاب کیلئے الگ سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد عوام کیلئے آسانی پیدا کرنا ہے، جنوبی پنجاب کے عوام پیچھے رہ گئے ہیں، انتظامی طور پر جنوبی پنجاب کیلئے آسانی پیدا کررہے ہیں، جنوبی پنجاب کے لوگوں کیلئے لاہور آنا مشکل ہے۔ راجن پور کیلئے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام میں فی کس ڈھائی ہزار روپے جبکہ لاہور کیلئے 70 ہزار روپے خرچ ہوئے۔

جنوبی پنجاب صوبہ کا قیام مرحلہ وار ہی ہو گا یہ آسان نہیں ہے۔ جب ان سے یہ کہا گیا کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے تک ہو سکتا ہے کہ انتخابات ہی آ جائیں تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات ہی پہلے ہو جائیں، کپتان اپنی حکمت عملی کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مسائل بہت زیادہ ہیں، اب ترجیحات کے ذریعے کام کرنا ہو گا، جنہوں نے قرضہ 30 کھرب تک پہنچایا ان کا احتساب ہو گا، قانون توڑنے والوں اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ گورنر ہائوس کی دیواروں کا توڑنا غلامی کی علامت ختم کرنا ہے، خیبر پختونخوا میں خواتین اور بچوں کیلئے پارکس بنائیں گے، ایک طرف عوام بھوکی سورہی ہے، دوسری طرف شاہانہ اخراجات تھے، وزیراعظم ہائوس کو پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سو دن بہت مشکل تھے، سب سے بڑا مسئلہ معیشت تھا، قرضہ واپس کرنے، تیل کی امپورٹ کیلئے پیسہ درکار تھا ہمارے پاس یہ آپشن تھا کہ سیدھے آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تاہم ڈر یہ تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے غربت اور مہنگائی بڑھے گی۔

ہم نے اس کیلئے متبادل راستے بھی اختیار کئے تاکہ اگر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا بھی پڑے تو کم سے کم رقم کیلئے جانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات ترسیلات زر اور سرمایہ کاری بڑھانا ہماری ترجیحات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار ملک میں پلانٹ لگ رہا ہے جہاں مکمل کار بنے گی اور یہاں سے برآمد بھی ہو سکے گی۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات