حسین شہید سہروردی نے مسلمانان برصغیر کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی خاطربھرپور کام کیا، پروفیسر عظمیٰ سلیم

منگل 4 دسمبر 2018 21:00

لاہور۔4 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2018ء) حسین شہید سہروردی نے مسلمانان برصغیر کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی خاطربھرپور کام کیا، 1946ء کے انتخابات کے دوران مسلمانوں کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے پر آمادہ کیا، حسین شہید سہروردی نے تحریک خلافت میں سرگرم حصہ لیا اور خلافت کمیٹی کلکتہ کے سیکرٹری بھی رہے۔ان خیالات کااظہار پروفیسر عظمیٰ سلیم نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،لاہور میں تحریک پاکستان کے رہنما حسین شہید سہروردی کی 55ویں برسی کے سلسلے میں نئی نسل کو ان کی حیات وخدمات سے آگاہ کرنے کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا ۔

پروفیسر عظمیٰ سلیم نے کہا کہ سید حسین شہید سہروردی 1893ء میں مدناپور (بنگال) میں پیدا ہوئے۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کلکتہ کالج میں تعلیم حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ چلے گئے۔

(جاری ہے)

ہندوستان واپس آکر وکالت شروع کی اور سیاست میں عملی حصہ لیا۔ کلکتہ کے ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 1921ء میںآپ صرف اٹھائیس سال کی عمر میں بنگال لیجیسلیٹو کونسل کے ممبر بن گئے۔

1937ء میں حسین شہید سہروردی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اسی سال مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اسمبلی کی نشست حاصل کی۔ انہوں نے جلد ہی مسلم لیگ کے ایک سرگرم رکن کے طور پر خدمات انجام دینا شروع کردیں۔ اسی دوران وہ بنگال پراونشیل مسلم لیگ کے سیکرٹری بنا دیئے گئے۔ کئی بار بنگال کابینہ کے رکن بھی مقرر ہوئے۔ ان کے پاس مختلف اوقات میں تجارت‘ لیبر‘ مالیات‘ صحت‘ دیہات سدھار اور خوراک کے محکمے رہے۔

وہ اپنے مناصب کے حوالے سے بہتر اور تعمیری خدمات انجام دیتے رہے۔ 1946ء کے انتخابات میں حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کو بڑی عمدگی سے منظم کیا۔ بعدازاںحسین شہید سہروردی نے آزاد ارکان کے ساتھ مل کر بنگال میں وزارت قائم کی اور وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد جب بنگال میں فساد شروع ہوا تو انہوں نے مغربی بنگال کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو بحفاظت پاکستان پہنچانے میں مدد دی۔

20دسمبر 1954ء کو وزیر قانون بنے۔ اگست 1955ء میں جب مسلم لیگ اور متحدہ محاذ کی مشترکہ وزارت قائم ہوئی تو آپ حزب اختلاف کے لیڈر منتخب ہوئے۔ 12دسمبر 1956ء کو ری پبلکن پارٹی کے تعاون سے مرکز میں وزارت بنائی۔ خود وزیراعظم بنے۔ گیارہ ماہ بعد دونوں پارٹیوں میں پھوٹ پڑ جانے سے بحران پیدا ہوا تو مستعفی ہوگئے۔ جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کی سخت مخالفت کی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 5دسمبر 1963ء کو بیروت کے ایک ہوٹل میں انتقال کیا۔ ڈھاکہ میں دفن ہوئے۔