ایسا نہیں جو نیب کی انکوائری بھگت آیا وہ بہشتی دروازے سے گزر گیا، دوبارہ ثبوت ملیں گے تو پکڑیں گے اور تحقیقات ہونگی‘ ڈی جی نیب

پلی بارگین کا قانون یورپ اور امریکہ میں بھی ہے ،یہاں اسے متنازعہ بنا دیا گیا ،پلی بارگین جوڈیشل آڈر ہے جو جج صاحب کرتے ہیں غریب نیب میں جاتا ہے تو جیل ٹھیک ، امیر جائے توعقوبت خانے میں تبدیل ہو جاتے ہیں ‘ شہزاد سلیم کا الحمرا میں منعقدہ تقریب سے خطاب

جمعرات 6 دسمبر 2018 15:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2018ء) قومی احتساب بیورو لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم نے کہا ہے کہ پلی بارگین کا قانون یورپ اور امریکہ میں بھی ہے لیکن یہاں اسے متنازعہ بنا دیا گیا،پلی بارگین جوڈیشل آڈر ہے جو چیئرمین نیب نہیں بلکہ جج صاحب کرتے ہیں ،ایسا نہیں کہ جو نیب کی انکوائری بھگت آیا وہ بہشتی دروازے سے گزر گیا، اگراس کے خلاف دوبارہ کوئی ثبوت ملیں گے تو اسے پکڑیں گے اور تحقیقات ہوں گی ، ڈیڑھ سال کے عرصے میں 6ارب62کروڑ روپے لٹیروں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں جبکہ 5ارب 33کروڑ کے پلاٹس،زمینیں اور عمارتیں لوگوں کو واپس کرائی گئیں ،نیب میں گرفتار تمام ملزمان کی اہل خانہ سے ملاقات کراتے ہیں ، غریب نیب میں جاتا ہے تو جیل ٹھیک ، امیر جائے توعقوبت خانے میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،بعض کی تو دو ،دو اورتین ،تین بیویاں ملنے آتی ہیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوںنے الحمرا میں کرپشن کے خلاف منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ڈی جی نیب شہزاد سلیم نے کہا کہ نیب کا سوفٹ امیج عوام تک نہیں پہنچتا ۔ ہماری تو کوشش ہے کہ معاشرے سے برائیاں کم سے کم ہو جائیں اورسرے سے کرپشن نہ ہو تاکہ ہم لوگوں کو نہ پکڑیں اور باتیں بھی نہ ہوں ۔ ہر بندہ اپنے مزاج کے مطابق کام کر رہا ہے ۔ہر محکمہ کام کر رہا ہے لیکن احتساب کا کام نیب پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔

جب ہم بلاتے ہیں اور پکڑتے ہیں تو پھر نا گوار گزرتا ہے ۔ جب ہم سوال پوچھتے ہیں تو برے لگتے ہیں ۔ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں میں کرپشن کے خلاف شعور اجاگر ہو ۔ہم آگاہی مہم ، تدارک اورحکومت کو تجاویز دیتے ہیں ۔ ہم تعلیمی اداروں میں جا کر بار بار دہراتے ہیں تاکہ بچے کرپشن سے نفرت کریں اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائیں ۔ نیب کرپشن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا ہوا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ موجودہ چیئرمین نیب کو آئے ایک سال ہو گیا ہے او ران کا نعرہ احتساب سب کے لئے ہے اور نہ صرف لاہور بلکہ تمام ریجن اس نعرے پر چل رہے ہیں ۔ وائٹ کالر کرائم کے ثبوت کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ جو کرپشن کرتے ہیں وہ ثبوت اور شواہد مٹا دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی کرپشن کر پکڑنے میں پانچ سے چھ سال لگ جاتے ہیں لیکن یہاں ہم اسے ایک سال میں منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ ا گر کیس کا میرٹ ہوتو کیس بنے گا اگر ثبوت نہیں ہوں گے تو کیس نہیں چلے گا اسے بند کر دیں گے اور نیب دونوں کام کرتا ہے ۔ مجھے ڈیڑھ سال پہلے ذمہ داری گئی اور ہم نے 6ارب62کروڑ روپے لٹیروں سے واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں ،اس کے علاوہ پلاٹس، زمینیں، عمارتیںجو لوگوں کو نہیں دی جارہی تھیں وہ واپس لے کر دیں جن کی مالیت 5ارب33کروڑ روپے بنتی ہے ۔

انہوںنے کہا کہ پلی بارگین کا قانون یورپ اور امریکہ سے آیا ہے یہ یہاں سے وہاں نہیں گیا ، یہاں اسے متنازعہ بنایا جاتا ہے ۔ پلی بارگین ایک جوڈیشل آڈر ہے جو جج صاحب کرتے ہیں یہ چیئرمین نیب نہیں کرتے۔ انہوںنے کہا کہ اگر ہمیں کوئی کسی کی کرپشن کے حوالے سے بتاتا ہے تو ہم اس سے ثبوت مانگتے ہیں کیونکہ ہم نے عدالت کو ثبوت دکھانا ہوتے ہیں ۔

نیب بہشتی دروازہ نہیں کہ جو یہاں سے گزر گزر گیا پاک صاف ہو گیا اگر کسی کے خلاف ثبوت ملیں گے تو وہ دوبارہ پکڑا جائے گا دوبارہ تحقیقات ہوں گی۔ انہوںنے کہا کہ تمام گرفتار ملزمان کی قانون کے مطابق اہل خانہ سے ملاقات کرائی جاتی ہے ،بعض کی تو دو ، دو اورتین ،تین بیویاں ملاقات کے لئے آتی ہیں۔ اگر کوئی بڑا آدمی نیب کی گرفت میں آتا ہے تووہ جھوٹی کہانیاں سناتا ہے کہ لوگ نیب سے خوف زدہ ہو ں۔

غریب نیب میں جاتا ہے تو جیل ٹھیک ، امیر جائے توعقوبت خانے میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،کوئی کہتا ہے کہ نیب میں کیمرے لگے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ جس کے خلاف کرپشن کرنے پر جتنا ثبوت آئے گا نیب اتنی ریکوری کرے گا، نیب پاکستان کا وفادار ہے ،ترقی کیلئے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اور نیب اس کیلئے کوشاں ہے ۔