ڈیمز فنڈز کی رقم پر سپریم کورٹ اور ججز بھی قابل احتساب ہیں ،ْ چیف جسٹس ثاقب نثار

واپڈا بتائے ڈیم کی تعمیر کے مراحل اور ٹائم فریم کیا ہو گا، عملدرآمد بینچ ٹائم فریم کے مطابق کام کی تکمیل یقینی بنائے گا ،ْ ریمارکس

جمعرات 6 دسمبر 2018 20:03

ڈیمز فنڈز کی رقم پر سپریم کورٹ اور ججز بھی قابل احتساب ہیں ،ْ چیف جسٹس ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2018ء) چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ ڈیم فنڈز کا ایک روپیہ بھی کسی اور کام پر خرچ نہیں ہوگا ،ْ ڈیمز فنڈز کی رقم پر ججز اور سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈیم بننے کا عدالتی فیصلہ حتمی ہوچکا ہے، فیصلے کے خلاف کوئی نظرثانی درخواست نہیں آئی، ڈیم کی تعمیر کے جائزے کیلئے عملدرآمد بینچ تشکیل دیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واپڈا بتائے ڈیم کی تعمیر کے مراحل اور ٹائم فریم کیا ہو گا، عملدرآمد بینچ ٹائم فریم کے مطابق کام کی تکمیل یقینی بنائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ڈیم فنڈز کا ایک روپیہ بھی کسی اور کام پر خرچ نہیں ہوگا، ڈیمز فنڈز کی رقم پر ججز اور سپریم کورٹ بھی قابل احتساب ہے، ڈیم فنڈز سے پینسل خریدنے کی اجازت بھی عملدرآمد بینچ دے گا اور اٹارنی جنرل عملدرآمد بینچ کے فوکل پرسن ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ روپے کی قدر کم ہورہی ہے، عدالت نہیں چاہتی کہ ڈیم فنڈز کی رقم کی قدر کم ہو۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے سرنگ کی تعمیر ضروری ہے، این ایچ سی بابو سر کے علاقے میں سرنگ تعمیر کریگا اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سرنگ پر کام شروع ہوا لیکن مقامی عدالت نے حکم امتناع دیدیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس حکم امتناع کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم کی تعمیر میں جو بھی رکاوٹ آئے عدالت کو آگاہ کریں، فنڈز لینے کا مقصد ڈیمز کے لیے مہم شروع کرنا تھا، لوگ اب پوچھ رہے ہیں کہ ڈیم کب بنے گا، ڈیمز فنڈز کے لیے مزید کتنے پیسے درکار ہیں آگاہ کیا جائے اور یہ پیسہ کیسے اور کہاں سے آئے گا تفصیل دی جائے۔

اس دوران جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ پیسہ بنانے کے لیے بانڈز جاری کرنے ہیں یا کمپنی بنانی ہے، فنڈنگ کا بڑا حصہ وفاقی حکومت نے دینا ہے اور اگر اچھا مارک اپ ملے تو پیسہ بینک میں بھی جمع کروایا جاسکتا ہے۔جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ڈیم کی تعمیر کا کام نہیں رکنا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت سے ہدایات لے کر ٹائم فریم دیں اور آگاہ کیا جائے ہر سال پی ایس ڈی پی میں کتنی رقم مختص ہوگی۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ خدشہ ہے کہ سرنگ کی تعمیر ڈیم کے کام میں رکاوٹ نہ بنے اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ واپڈا کے مطابق 4 سے 6 ماہ میں سرنگ بن جائے اور سرنگ بننے سے دیامر بھاشا ڈیم کا راستہ 5 سے 6 گھنٹے کم ہوجائے گا۔بعد ازاں عدالت نے 24 دسمبر تک ڈیم کی تعمیر کا ٹائم فریم طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔