گرین لائن، تیزگام اور قراقرم ریلوے کی سروسز بہترین ہیں جن میں بہت زیادہ وقت کی پابندی کی جاتی ہے، رحمن بابا اور شاہ عبدالطیف ٹرینوں کی ابتدائی دنوں کی کارکردگی بھی بہت اچھی رہی ہے۔

جلد ہی ڈویڑنل ہیڈ کوارٹرز میں وائی فائی سروس شروع کر دی جائے گی، 25 دسمبر2018ء سے ٹرینوں کیلئے ٹریکر سسٹم شروع کر دیا جائے گا وزیرریلوے شیخ رشید کی سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس کو بریفنگ

جمعرات 6 دسمبر 2018 22:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 دسمبر2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد اسد علی خان جونیجو کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 3 اکتوبر2018ء کو ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ ریلوے انسپیکٹوریٹ کے کام کے طریقہ کار، کارکردگی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مسافر ٹرینوں کی اوسط وقت کی پابندی 79 فیصد ہے، سردیوں میں دھند کی وجہ سے ٹرینوں کی پابندی متاثر ہو سکتی ہے۔ وزیرریلوے شیخ رشید نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گرین لائن، تیزگام اور قراقرم ریلوے کی سروسز بہترین ہیں جن میں بہت زیادہ وقت کی پابندی کی جاتی ہے۔ رحمن بابا اور شاہ عبدالطیف ٹرینوں کی ابتدائی دنوں کی کارکردگی بھی بہت اچھی رہی ہے۔

(جاری ہے)

جلد ہی ڈویڑنل ہیڈ کوارٹرز میں وائی فائی سروس شروع کر دی جائے گی اور 25 دسمبر2018ء سے ٹرینوں کیلئے ٹریکر سسٹم شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کی آمدن میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ گزشتہ ایک دن میں ہی ریلوے کو دس کروڑ بیس لاکھ کی آمدن ہوئی۔ اس سے ایک روز قبل نوکروڑ کی آمدن ہوئی تھی۔ گزشتہ سال کے تین ماہ کی نسبت اس سال 2ارب کی اضافی آمدن حاصل ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ ریلوے ملازمین کی انتھک محنت ہے اور حکومت کی ریلوے کے شعبہ کی بہتری کیلئے دلچسپی ہے۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کے کرایوں میں دس سے بارہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے، صرف مہنگی ٹرینوں کے کرایوں میں 200 سے 250 روپے اضافہ ہوا ہے، ریلوے سے حاصل ہونے والی آمدن سے نئی مشینری اور مرمت کے کام کئے جا رہے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا جنوری میں دو نئی سامان بردار ٹرینیں شامل کر دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کر دی ہے کہ ریلوے ٹریک کے قریب سکولوں اورگراؤنڈوں کے دروازے بند کروائے جائیں۔

ریلوے ٹریک کے قریب کرکٹ گراؤنڈ اور سکول بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ریلوے کے بورڈ اتارنے سے دو ارب کا نقصان ہوا ہے۔ ایک بورڈ کی قیمت 14 لاکھ روپے بنتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایم ایل ٹو اور تھری کا زیادہ تر ٹریک اپنی عمر پوری کر چکا ہے جس پر ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 اور کم سے کم 30 رکھی جاتی ہے جو ریلوے میں تاخیر کا سبب بھی بنتا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی پیک کا منصوبہ دو ممالک کے اعتماد کا نتیجہ ہے بہتر یہی ہے کہ اس منصوبے میں کسی اور ملک کو شامل نہ کیا جائے۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گوجرخان اور کھاریاں کے درمیان ایک لمبا پہاڑی موڑ ہے ٹنل بنانے سے 19 کلو میٹر فاصلہ کم ہوگا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ عبدالغفور کے دور میں دو بزنس ٹرینیں چلائی گئی تھیں جو فیل ہو گئیں، ان کو بحال کرانے کیلئے بھی کام کیا جائے جس پر وزریر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ بزنس ٹرینوں کے کیسز نیب کو بھیجے ہیں اور زمینوں پر قبضہ چھڑانے کیلئے خود سپریم کورٹ جاؤں گا۔

چیئرمین کمیٹی محمد اسد علی خان جونیجو نے کہا کہ انہوں نے لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن کا اچانک دورہ کیا بے شمار حیرانگی کی باتیں سامنے آئیں، ٹرین صرف 5 منٹ تاخیر کا شکار تھی انتظار گاہ بہت اچھی بنی ہوئی تھی باتھ روم اچھی حالت میں تھے ایک بھی شکایت سننے کونہیں ملی۔جس پر شیخ رشید نے قائمہ کمیٹی نے کو بتایا کہ بہت جلد روہٹری ریلوے اسٹیشن کو جدید ریلوے اسٹیشن میں تبدیل کر دیاجائے گا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ریلوے کی وقت کی پابندی کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو مسافر ٹرینوں ، سامان بردار ٹرینوں اور دیگر ٹرینوں کی وقت کی پابندی کے حوالے تفصیلی رپورٹ فراہم کریں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیاکہ مندرہ سے چکوال ریلوے ٹریک1991 میں بند کر گیا تھا یہ 75 کلو میٹر کا ٹریک تھا کمرشل ٹرین قابل عمل نہیں تھی۔نئی سٹرکیں بننے کی وجہ سے سیمنٹ فیکٹریوں کے مالکان نے چواہ سیدان شاہ تک ٹریک بڑھانے کی بات کی تھی جس پر 6 ارب روپے کا خرچہ ہوتا اور موجودہ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے پر 3 ارب روپے خرچ ہوتے۔

وزارت ریلوے نے کچھ شرائط رکھیں جس کا انہوں نے انکار کر دیا۔ قائمہ کمیٹی کو ریلوے انسپکٹوریٹ کے کام کے طریقہ کار کارکردگی بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کو پاکستان ریلوے انسپکٹوریٹ کے دوست علی لغاری نے بتایا کہ یہ ادارہ1974 سے وزارت ریلوے کے مشاہدے کا کام کر رہا ہے۔اس ادارے کا ہیڈ گریڈ 21 کا ایک انسپکٹر ہوتا ہے اس ادارے کا کام سیفٹی کے حوالے سے ٹیکنیکل منظوری دینا ہوتا ہے۔

ٹریک کامعائنہ کر کے خامیوں بارے آگاہ کرنا شامل ہے۔ ریلوے روٹ کا سالانہ 30 فیصد تک معائنہ کیا جاتا ہے جبکہ جنرل معائنہ 25 فیصد تک ہوتا ہے۔ یہ ادارہ ریلوے حادثات کی وجوہات کی انکوائری کرتا ہے۔ گزشتہ 5 سالوں کے دوران اب تک بڑے 12 حادثات کی انکوائری کی گئی ہے جن میں61 اموات اور350 مسافر زخمی ہوئے۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ لاہور میں 9 حادثات ہوئے جن میں8اموات اور 5 زخمی ہوئے ، سکھر میں6 حادثات12 اموات اور 11 زخمی ہوئے ، ملتان اور پنڈی میں4/4 جنوری سے اکتوبر2018 تک حادثات ہوئے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2017 میں67 حادثات اور 2018 میں 73 حادثات ہو چکے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پنجاب میں54 ان مینڈ لیول کراسنگ پوائنٹ ہیں اور سول حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سٹاف معیار کے مطابق نہیں تھا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت ریلوے میں سٹاف کی شدید کمی ہے اور بے شمار غیر ٹیکنکل افراد کو بھی بھرتی کیا گیا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ وزارت ریلوے میں بھرتی کے وقت کیے گئے میڈیکل اور نفسیات کے ٹیسٹ معیاری نہیں ہوتے جن کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے قائمہ کمیٹی اس کا سخت نوٹس لیتی ہے اور ریلوے انسپکٹوریٹ کے اٹھائے گئے تحفظا ت پر تفصیلی رپورٹ وزارت ریلوے سے طلب کر لی۔ قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ریلوے افسران کی قابلیت اور سیکورٹی انتظامات موثر نہیں ہیں اور 2005 سے کوئٹہ ڈویڑن کا معائنہ تک نہیں کرایا گیا۔انفراسٹرکچر کوڈویلپ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

سینیٹر کلثوم پروین کے سوال پر چیئرمین کمیٹی نے وزارت ریلوے سے 2003 سے اب تک ریلوے حادثات ، اموات ، حادثات کے نتیجے میں دیئے گئے معاوضے ، دوران سروس ملازمین کی اموات پر دیئے گئے معاوضے ، حادثات میں ملوث ریلوے ملازمین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات وغیرہ کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ چیئرمین کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ آئندہ اجلاس میں ریلوے پولیس کی کارکردگی اور گزشتہ اجلاس میں دی گئی سفارشات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر ز مرزا محمد آفریدی، گیان چند، خانزادہ خان، بریگیڈیئر (ر) جان کنتھ ویلمز، کلثوم پروین اور قرة العین مری کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید، ایڈیشنل سیکرٹری ریلوے، ڈی جی ریلوے آپریشن، انسپکٹوریٹ ریلوے کے دوست علی لغاری و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔