امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے تو پاکستان ،افغانستان اور خطے سب کے مفاد میں ہوگا، پشتون تحفظ موومنٹ

ایسی حد عبور نہ کرے کہ پھر ریاست کو اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑیں،افواج پاکستان اس ملک کی فوج ہے،اس کا تعلق ایک پارٹی، بندے یا ایک صوبے سے نہیں، ہم حکومت کا ادارہ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی پھر اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مراد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں، اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی ملک کی مجموعی داخلی سکیورٹی صورتحال اور دیگر امور سے متعلق میڈیا کو بریفنگ

جمعرات 6 دسمبر 2018 22:24

امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے تو پاکستان ،افغانستان اور ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 دسمبر2018ء) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے تو پاکستان ،افغانستان اور خطے سب کے مفاد میں ہوگا، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) ایسی حد عبور نہ کرے کہ پھر ریاست کو اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑیں،افواج پاکستان اس ملک کی فوج ہے،اس کا تعلق ایک پارٹی، بندے یا ایک صوبے سے نہیں، ہم حکومت کا ادارہ ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے، یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی پھر اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مراد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں، اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے، ہم نازک وقت سے اس مقام پر آگئے ہیں، جسے واٹر شیڈ کہتے ہیں، آج ہم اُس واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں، جہاں سے آگے نازک وقت نہیں، یا بہت اچھا وقت ہے یا پھر نازک وقت سے خراب وقت ہے۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ میں ملک کی مجموعی داخلی سکیورٹی صورتحال اور دیگر امور سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے اور وقت قریب ہے کہ ہم مکمل امن کی طرف چلیں گے۔آپریشن رد الفساد کے دوران ملک بھر میں کی گئی کارروائیوں کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت 44 بڑے آپریشن کیے گئے جس کے دوران ملک سے 32 ہزار سے زائد ہتھیار ریکور کیے گئے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت کمی واقع ہوئی ہے اور وہاں فراری ہتھیار ڈال رہے ہیں،پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے دیگر فراری بھی آئیں ،ہتھیار ڈالیں اور بلوچستان کی ترقی میں شامل ہوجائیں ۔انہوں نے بتایا کہ افواج پاکستان کی زیادہ تر توجہ بلوچستان کی جانب ہے، تاکہ وہاں صورتحال بہتر ہو۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے، جس کا کریڈٹ پاکستان رینجرز سندھ کو جاتا ہے، جس نے جانفشانی سے کام کیا اور اس شہر کی روشنیاں واپس لوٹائی ہیں جبکہ پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی ایک زمانے میں جرائم کی شرح کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر تھا لیکن اب یہاں صورتحال بہت بہتر ہے، شہر میں دہشت گردی کے واقعات میں 99 فیصد جبکہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 93 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم والوں کے مسئلے سے ریاست یا فوج نے آنکھیں نہیں پھیریں، پشتون تحفظ موومنٹ والوں کے صرف 3 مطالبات تھے، چیک پوسٹوں میں کمی، مائنز کی کلیئرنس اور لاپتہ افراد کی بازیابی، یہ وہ مطالبات ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے اور وہ کررہی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اگر پی ٹی ایم والے ڈیڈ لائن کراس کریں گے تو ہم انہیں چارج کریں گے لیکن ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہوا ہے کیونکہ وہ دکھے ہوئے ہیں ان کے علاقے میں پندرہ سال جنگ ہوئی جس کا شکار ان کے بہت سے لوگ ہوئے، ان کے مسئلے سے ریاست یا فوج نے آنکھیں نہیں پھیریں،پی ٹی ایم والے اس لائن کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ان کے ساتھ وہی ہوگا جو ریاست اپنی اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے کرتی ہے اور ہم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے صورتحال میں بہتری آنے پر چیک پوسٹوں میں کمی کی ہے، اگلے سال پاک افغان بارڈر پر خاردار تار لگانے کا کام مکمل ہوجائے گا، جس سے صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔انہوں نے کہاکہ ہم نے 15 سال جنگ لڑی، جس کے دوران بہت سے دہشت گرد مارے گئے، اس وقت بھی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی فورس وہاں بیٹھی ہے تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ لاپتہ افراد ان کی فورس میں شامل نہیں ، یا کسی اور جگہ لڑائی میں استعمال نہ ہورہے ہوں،لاپتہ افراد سے متعلق 2 جگہوں پر شکایات موصول ہوئیں اور مجموعی طورپر 7 ہزار کیسز آئے، جن میں سے تقریباً 4 ہزار کیسز حل ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑتے ہوئے شہید یا زخمی ہوئے، وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ کرتارپور راہداری صرف ون وے ہوگی، بھارت سے سکھ یاتری آئیں گے اور واپس چلے جائیں گے، کرتارپور راستے پر خاردار تاریں لگائی جائیں گی۔بھارتی آرمی چیف کے بیان سے متعلق میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہم مسلمان ریاست ہیں، ہمیں نہ بتائیں ہمیں کیسے بننا ہے، بھارت خود کو سیکولر ملک کہتا ہے تو وہ پہلے بن بھی جائے، وہاں مسلمانوں کی کیا حالت ہے، ہم نے تو کرتارپور کو دوسرے مذہب کی بنیاد پر کھول دیا، ہم مندر اور گرجا گھروں کو سیکیورٹی دیتے ہیں لہٰذا بھارت خود سیکولر بن جائے اور ہمیں ایسے ہی برداشت کرے جیسے ہم ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم ڈٹ کر کھڑے ہیں، بھارت کیا بڑا اقدام کرے گا، اگر جارحیت کرے گا تو اس کا جواب دیں گے، انہوں نے جنگ بھی کرکے دیکھ لی، جنگ کرنے آئیں گے تو دیکھ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ 2017 میں بھارت کی جانب سے سیز فائر کی1881 خلاف ورزیاں ہوئی تھیں، لیکن رواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے ہیں ،بھارتی فورسز جان بوجھ کر عام آبادی کو نشانہ بتاتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی جتنی پاکستان نے حاصل کی،پاکستان سیاسی مذاکرات کی بات کرتا ہے اور ہر وہ قدم اٹھا رہا ہے جو سیاسی مذاکرات کو کامیاب کرے اور اب امریکا خواہش کر رہا ہے کہ کسی طرح سے مذاکرات ہوجائیں، ہمارا ان پر اتنا اثرورسوخ نہیں، لیکن ہم جتنا کردار ادا کرسکتے ہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سال گزر گئے لیکن ہم اب بھی عوام کو بتا رہے کہ ہم نازک دور سے گزر ہے ہیں، نازک دور کیوں آئے اور اس کا ذمہ دار کون ہی اس پر بحث ہوئی ہے لیکن نتیجہ نہیں نکلتا، سب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں،اگر ہم ماضی میں بیٹھے رہے تو آگے نہیں جاسکتے، ہم ماضی سے صرف نتیجے لے سکتے ہیں،ہم نازک وقت سے اس مقام پر آگئے ہیں، جسے واٹر شیڈ کہتے ہیں، آج ہم اُس واٹر شیڈ پر کھڑے ہیں، جہاں سے آگے نازک وقت نہیں، یا بہت اچھا وقت ہے یا پھر نازک وقت سے خراب وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی جنگیں لڑیں، آدھا ملک گنوادیا، لیکن پچھلے چند سالوں میں بہتری کی طرف آئے، ملک امن کی طرف گیا، معیشت میں بہتری آئی، ہم اس کو ریورس کیوں کرنا چاہتے ہیں کیا اس نازک لمحے سے اچھے پاکستان کی طرف نہیں جاسکتی فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے ایسا ہی رہنا ہے یا کامیابیوں کے ساتھ آگے چلنا ہے۔انہوں نے میڈیا کے کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، یہ ریاست کا چوتھا ستون ہے، سب مضبوط ہوگئے اور آپ جھٹکے لگائیں تو بلڈنگ کو نقصان ہوگا،صرف چھ مہینے کے لیے پاکستان کی ترقی دکھائے اور پھر دیکھے کہ ملک کہاں پہنچتا ہے۔