Live Updates

حکومت توہین رسالت کے معاملے پر اقوام متحدہ میں مدعی بنے ،امیر جماعت اسلامی

امریکہ ومغرب مسلمانوں کو یہ سمجھارہے ہیں کہ وہ اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کو برداشت کریں ، توہین رسالت ؐ کے حوالے سے قانون سازی کرنے، اس معاملے کو عالمی سطح پراٹھانے کے لیے جنیوا میں بھی جیوریسٹ کانفرنس منعقد کریں گے،سینیٹر سراج الحق

جمعہ 7 دسمبر 2018 23:47

حکومت توہین رسالت کے معاملے پر اقوام متحدہ میں مدعی بنے ،امیر جماعت ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 دسمبر2018ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ امریکہ ومغرب مسلمانوں کو یہ سمجھارہے ہیں کہ وہ اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کو برداشت کریں ، ہم واضح کرتے ہیں کہ پوری امت نبیؐ سمیت کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی قبول اور برداشت نہیں کرے گی ، مسلمانوں نے اس حوالے سے ہمیشہ اور ہر دور میں ایمانی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کیا ہے ، حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ توہین رسالتؐ کے معاملے پر اقوام متحدہ میں مدعی بنے اور اس مسئلے کو اٹھانے اور عالمی سطح پر قانون سازی کے لیے اسلامی ممالک کی تنظیم کے توسط سے بھی اپنا کردار اداکرے۔

یہ مسئلہ صرف جلسے جلوسوں اور مظاہروں کا موضوع نہیں بلکہ ایک منظم تحریک اور جدوجہد کرنے اور سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے کا موضوع ہے ، اس پر اسلام آباد اور آج کراچی میں جیوریسٹ کا نفرنس کے انعقاد کے بعد توہین رسالت ؐ کے حوالے سے قانون سازی کرنے اور اس معاملے کو عالمی سطح پراٹھانے کے لیے جنیوا میں بھی جیوریسٹ کانفرنس منعقد کریں گے ،نبی کریم ؐ کی شخصیت پوری انسانیت کے لیے محسن ہے ، زندگی کے آخری لمحے اور خون کے آخری قطرے تک ناموس رسالت ؐ اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد جاری رہے گی ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی اور اسلامک لائرز موومنٹ کے تحت جیوریسٹ کانفرنس بعنوان ’’تحفظ ناموس رسالتؐ و مقدسات ختم نبوتؐ کے آئینی و قانونی تقاضے ‘‘ سے خطا ب کرتے ہوئے کیا ۔ کانفرنس میں سابق ججز صاحبان ، سینیئر وکلاء ، کراچی ہائی کورٹ و کراچی بار کونسل کے موجودہ و سابق عہدیداران و نمائندے اور مردو خواتین وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

کانفرنس میں متفقہ طور پر قرارداد بھی منظور کی گئی ۔کانفرنس سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو ، ڈپٹی سکریٹری کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ ، شعاع النبی ایڈوکیٹ ، نجم ایڈوکیٹ ، جسٹس (ر)عبد القادر مینگل ، سپریم کورٹ کے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر محمد عاقل ، کراچی بار کے سابق صدر نعیم قریشی مسعود احمد ایڈوکیٹ، عبد الباسط آفریدی ، دلبر اعجاز ایڈوکیٹ ، انصاف علی ایڈوکیٹ ، ظہورمسعود ایڈوکیٹ ، ودیگر نے بھی خطاب کیا ۔

اس موقع پر جسٹس (ر)محمد شفیع محمدی ،امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی ، امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن ، سکریٹری کراچی عبد الوہاب ، راجہ عارف سلطان ایڈوکیٹ اور دیگر بھی موجود تھے ۔سینیٹر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسلامک لائرز موومنٹ نے یہ کانفرنس منعقد کرکے انتہائی اہم کام کیا ہے جس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ سعی کرنے پر ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ قانون توہین رسالت مسلمانوں کے لیے دین و ایمان کا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ دنیاکے امن کا بھی مسئلہ ہے۔ مسلمان جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں اسی طرح دیگر انبیاء علیہم السلام پر بھی لائے ہیں۔اور ہم تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ہم ملک میں موجود تمام اقلیتوں کا احترام اور عزت کرتے ہیں۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نہ تو ملک کے اندر اور نہ کسی اور جگہ توہین ہرگز قبول نہیں کرتے۔ انگریز کے دور میں بھی 295-Aموجود تھا جس پر انبیاء کی توہین پر 3 سال کی سزا تھی۔ پاکستان کے آئین میں 295-Cمیں توہین رسالت کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ آج ہماری کانفرنس کسی شخصیت یا ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کی توہین کا معاملہ پوری انسانیت کا معاملہ ہے ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود نہیں جن میں اس قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہو اور آج تک اس قانون کے تحت کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی ، قانون کے غلط استعمال کو قانونا ختم کرنے کی دلیل کسی طرح بھی درست نہیں ،دفعہ 302اور دیگر دفعات کے تحت لوگوںکو غلط سزائیں دی جاتی ہیں لیکن آج تک کسی نے اس کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ۔

اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ ملعونہ آسیہ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور معافی مانگی ہے اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ آسیہ کے بیان میں خود اس کی طرف سے خوف اور ٹینشن کا کوئی ذکر نہیں پھر اس کو کیوں اہمیت نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مشعل کیس کا حوالہ دیا ہے جو ابھی زیر التواء ہے۔ تو پھر اس کا حوالہ کس طرح دیا جاسکتا ہے۔

ججز حضرات نے آسیہ کے وکیل کا کردار ادا کیا ہے اور ان کے فیصلے میں تضادات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گواہوں کے بیانات کو مسترد کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں اگر گواہوں نے شرکاء کی تعداد الگ الگ بتائی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کا کوئی اجتماع ہوا ہی نہیں۔ اسد اللہ بھٹو نے اس فیصلے کے حوالے سے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان نے فیصلے سے قبل عیسائی پادریوں سے کیوں ملاقات کی۔

اس سے قبل اسرائیل کا جہاز کیوں آیا۔ ہمارے وزیر خارجہ کے پاس بیرون ممالک سے فون کیوں آرہے تھے۔ میڈیا کو اس حوالے سے کیوں خاموش کیا گیا۔ یہ واحد فیصلہ ہے جو اردو میں ہے ایسا کیوں کیا گیا۔ حکومت نظر ثانی کرنے سے کیوں گریز کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ ناموس رسالت پر جان بھی قربان ہے ان قوانین کے تحفظ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔

ریٹائرڈ جج عبد القادر مینگل نے کہا کہ آج میں اس کانفرنس میں شریک ہوکر فخر محسوس کررہاہوں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ ہمارے آئین کے اکثریتی قوانین اسلام کے مطابق ہیں۔ 265-Cکا قانون ایک اسلامی قانون ہے اور شرعی طور پر درست ہے اس پر ملک کے تمام مسالک کے علماء متفق ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اس پر درست طریقہ سے عمل کیا جائے اور مغرب کے حوالے سے موقع نہ دیا جائے کہ وہ اس پر تنقید کریں۔

ہم کسی کی بھی خواہش پر ان قوانین میں تبدیلی تبدیلی ہرگز نہیں کرسکتے ان کی بقاء کے لئے ہم اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے اور نہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم جب کسی اور کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تو پھر ہمارے معاملات میں بھی مداخلت نہ کی جائے اور ہمارے قوانین کا احترام کیا جائے۔ باہمی کے لیے ضروری ہے کہ یو این او ایک ارب مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا خیال رکھے اور اپنا کردار ادا کرے۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر محمد عاقل ایڈوکیٹ نے کہا کہ یورپ کے ممالک میں جان بوجھ کر اس طرح کے حربے اختیار کیے جارہے ہیں جو کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک سازش کے تحت کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ مسلمان کسی کے عقیدے اور جذبات کو مجروح نہیں کرتے۔

اس لیے ہمارے عقیدے اور جذبات کو بھی مجروح نہ کیا جائے۔ نعیم قریشی ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج مسلمانوں میں اس عقیدے پر تو عمل کیا جاتا ہے کہ کسی کے عقیدے کو چھیڑو نہیں اور اپنے عقیدے کو چھوڑو نہیں لیکن یورپ ممالک میں ایسا نہیں کیا جاتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں۔ ہالینڈ اور ڈنمارک میں یہ عمل کیا گیا اور وہاں اس کی روک تھام کے لیے کوئی قوانین موجود نہیں۔

ویمن اسلامک لائرزفورم کی صدر طلعت یاسمین نے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض ہے اور ان کے مقرر کردہ اصولوں اور ہدایت کے مطابق اس میں نہ کوئی کمی نہ اضافہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت محسن انسانیت ہے اور اگر کوئی اس شخصیت کی توہین کررہا ہے تو یہ انسانیت کے لیے عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ ان کی شان میں ایک لفظ بھی کہنے والا ہمارے پورے ایمان عقیدے کو نشانہ بناتا ہے۔

ہمارا میڈیا اور ہمارے سورسز اس سلسلے میں کیا کررہے ہیں۔ اسلامی ممالک اور او آئی سی والے اپنا کردار ادا کریں۔ جیوریسٹ کانفرنس کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھایا جائے۔ یہ قانون قیام پاکستان سے قبل موجود ہے۔ ظہور مسعود ایڈوکیٹ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی توہین کو قانوناً خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ انبیاء کرام بالخصوص حضرت محمد ؐ کے متعلق توہین آمیزی کی کوششیں اور مذموم سازشیں دنیا بھر کے سوا ارب مسلمانوں کی دل شکنی و دل آزاری کا سبب بنتی ہیں اور مسلمان سخت اذیت اور تکلیف محسوس کرتے ہیں جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کے مترادف ہے ، غیر مسلم اقوام ، یورپی ممالک تقدس حرمت انبیاء ومقدسات ، بالخصوص ناموس رسالت ؐ کی اہمیت قدر وقیمت اور اس سے مسلمانوں کا دلی تعلق اور عقیدت و محبت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

یورپی ممالک اس طرح کی توہین کو آزادئ اظہار رائے کی آڑ میں اجازت دینے کے بجائے اس معاملے کو بنیادی انسانی حقوق اور دل آزاری کا مسئلہ سمجھیں اور اس عمل کے تدارک کا سد باب کریں۔اس لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے وہ تمام متعلقہ بین الاقوامی ادارے جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے معاہدات اورچارٹر تیار کیے ہیں اس نفرت انگیزی اور توہین آمیزی کے حوالے سے بھی بین الاقوامی قانون سازی کرے اور اس کے مرتکب ہونے والوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کا بندوبست کریں ۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ اس اہم اور حساس نوعیت کے مسئلے اور معاملے پر حکومت پاکستان بھی اپنا کردار اد اکرے ۔#
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات