کبھی افغانستان چھوڑنے کی تجویز نہیں دی، امریکی جنرل

افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور دہشت گردوں کو امریکا پر ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کے لیے خلا فراہم کرسکتی ہے، جوزیف ڈانفورڈ

اتوار 9 دسمبر 2018 17:10

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2018ء) امریکا کے آرمی چیف جنرل جوزیف ڈانفورڈ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور دہشت گردوں کو امریکا پر ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کے لیے خلا فراہم کرسکتی ہے،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اس لیے انہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی طویل دورانیے کے لیے موجودگی کی تجویز دی جو جنگ زدہ ملک میں استحکام کے لیے ہے،ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کس صورت میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کی تجویز دے سکتے ہیں، جس پر امریکی آرمی کے چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف نے دیئے گئے ویڈیو انٹرویو میں کہا کہ میں تجویز نہیں دوں گا کہ ہم افغانستان چھوڑ دیں، کیونکہ میرے مطابق افغانستان کو چھوڑنا نا صرف جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا باعث ہوگا بلکہ اس سے دہشت گردوں کو امریکی عوام، ان کی سرزمین اور ان کے اتحادیوں کے خلاف منصوبوں کے لیے خلا مل جائے گا (جیسا انہوں نے 11 ستمبر 2001 میں کیا تھا)۔

(جاری ہے)

جب امریکی جنرل سے واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈیوڈ نے سوال کیا کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران افغانستان میں 5 امریکی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی عوام نے سوالات اٹھائیں ہیں، جسے تسلیم کرتے ہوئے امریکی جنرل نے کہا کہ میرے مطابق افغانستان میں ہماری موجودگی کی وجہ سے، دشمن پریشان ہے۔ جس سے ان کی امریکا کو دھمکانے کی پوزیشن بھی کمزرو ہے۔انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کی مخالفت کرنے کی وجوہات بھی پیش کیں۔

امریکی جنرل نے کہا کہ ان کی خواہش ہے، اور مستقبل میں وہ ایسا کچھ کرسکتے ہیں، جو ہم 11 ستمبر کو دیکھ چکے ہیں۔امریکی جنرل نے انہیں یاد دہانی کروائی کہ وہ جو کہتے تھے ہیں کہ افغانستان پر توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے لیکن وہاں 20 تربیت یافتہ گروہ موجود ہیں، جو جنوبی علاقوں میں کارروائیاں کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ جنوبی ایشیا میں ہمارے محتاط مفادات اور پائیدار معیشت جبکہ پائیدار جمہوریت ہماری موجودگی سے مشروت ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ افغانستان میں امریکی ہدف بھی ہے، ایسا صرف اور صرف مسلح افراد پر مناسب سیاسی، معاشی اور فوجی دباؤ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے تاکہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکمت علمی اس صورت میں کام کرے گی جب امریکا عسکریت پسندوں پر معاہدے کو منظور کرنے کے لیے دباؤ کو مستحکم رکھے اور اس خطے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نیٹو اور دیگر امریکی اتحادی، افغان سیکیورٹی فورسز کو 2024 تک معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ طالبان پر دباؤ کی امریکی حکمت عملی درست سمت کی جانب جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ طویل عرصے میں پہلی مرتبہ ہمیں ایسی پیش رفت نظر آئی، جو افغان قیادت اور افغان عوام کے تحت مذاکراتی عمل کی ابتدا کے لیے موقع فراہم کررہی ہے۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے امریکا میں پورٹ بنانے کی چین کی کوششوں اور اس کے باعث امریکی برتری کو درپیش مسائل پر بھی بات کی۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال چین کے صدر نے واضح کیا تھا کہ وہ چین کو عالمی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔