کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے،ڈاکٹر اجمل خان

کوئی بھی ڈاکٹر یا ٹیچرتھر یااس جیسے دیگر علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دینا نہیں چاہتے ہیں،سینیٹر امام الدین شوقین کراچی پورے پاکستان کو ریلیف پہنچاتا ہے اور تقریباً70 فیصد ریونیوفراہم کرتاہے ،کراچی میں رہنے والے سب زیادہ انکم ٹیکس اداکرتے ہیں،علی رضاعابدی

اتوار 9 دسمبر 2018 18:10

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2018ء) جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے کہا کہ میں بحیثیت سائنسدان میں یہ بات کررہاہوں کہ پاکستان قدرتی وسائل میں دنیا کے امیرترین ممالک میں سے ایک ہے۔ملک کے تمام شعبے اس وقت ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں جب ہم سب محنت سے اور مل کر کام کریں ۔پاکستان میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے ،اگر ہم سب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں تو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے ملک کو درپیش مسائل کے خاتمے کے لئے اپنا کردار اداکریں۔کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔

(جاری ہے)

آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔

تاریخ گواہے کہ جو ممالک زوال پذیر ہوئے ہیں،ان کی پستی کی سب سے بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں، اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے زیر اہتمام اور ینگ سوشل ریفارمرز کے اشتراک سے جامعہ کراچی کے کلیہ فنون وسماجی علوم کی سماعت گاہ میں منعقدہ کانفرنس بعنوان: ’’پاکستان کی تعمیر وترقی میں نوجوانوں کا کردار‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

سینیٹر امام الدین شوقین نے کہا کہ بحیثیت طالب علم ہمارے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ مختلف ہوتاہے۔مگر جیسے ہی ہم اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں ،ہماری ترجیحات یکسر تبدیل ہوجاتی ہیں۔کوئی بھی ڈاکٹر یا ٹیچرتھر یااس جیسے دیگر علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دینا نہیں چاہتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتی احکامات پر ابھی حال ہی میں 100 سے زائد ڈاکٹر ز کا تھر میں تبادلہ کیاگیا تاہم جس پر ان کو اعتراض تھا کہ ان کے تبادلے سے ان کے گھریلو امور متاثر ہورہے ہیں جبکہ نوکری کے حصول کے وقت ڈاکٹرز اور ٹیچرز ہر جگہ کام کرنے کیلئے رضا مندی ظاہر کرتے ہیں۔

لائق تحسین ہیں وہ لوگ جو اپنے بجائے دوسروں کے لئے سوچتے ہیں۔سابق ممبر قومی اسمبلی علی رضا عابدی نے کہا کہ آج پاکستان میں ہم سب کو جس چیز میں شامل ہونے کی ضرورت ہے وہ وہ پاکستان کی معیشت کی ری ہیبی لیٹیشن کی ضرورت ہے۔آج سے تین ماہ قبل جوگھرانے 30 ہزار وپے میں گزاراکرتے تھے آج انہیں 36 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔کراچی میں بہت ڈیولپمنٹ کی ضرورت ہے ،کراچی پورے پاکستان کو ریلیف پہنچاتا ہے اور تقریباً70 فیصد ریونیوفراہم کرتاہے اورکراچی میں رہنے والے سب زیادہ انکم ٹیکس اداکرتے ہیں۔

ہم سب کو مل کر پاکستان کو ری ہیبی لیٹیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔عصر حاضر میںسوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے ہم مڈل مین کا رول ختم کرکے اصل ہنرمند کو زیادہ مالی فائدہ پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں،لہذا ہم سب اس کے لئے اپنا کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔سوشل سروس اور ڈیلیوری کا جذ بہ آپ اور ہم سب میں ہونا چاہیئے اور یہی چیز ہے جو آپ کو عوام سے قریب بھی کرتی ہے اور اپنے خیالات کے اظہار کا موقع اور رائے بھی ملتی ہیں۔

چیئرمین ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن سینٹرل ریحان ہاشمی نے کہا کہ آنے والے وقتوں جنگ پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔گذشتہ چند برسوں میں اندورن سندھ ہونے والی اموات کا تعلق غذائی قلت سے ہے، طبی سہولتوں کے فقدان سے نہیں ۔تھرسمیت صوبہ سندھ کے بیشتر ڈسٹرکٹ میں پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے۔انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر مسئلے کے حل کے لئے حکومت پر بھروسہ کرنے کے بجائے متبادل ذرائع سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

معروف موٹی ویشنل اسپیکر ساجد اطہر خان نے کہا کہ ہر شخص اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مشکل کا سامنا کررہاہوتاہے۔لیکن اگر مثبت سوچ کے ذریعے اس کا سامنا کیا جائے تو ان مشکلات کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت میں اس مشکل کو کافی حدتک کم بھی کیا جاسکتا ہے۔مسکرانا اور مسکراہٹ کا جواب اسی طرح سے دینا آپ کی مشکلات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

آپ کے چہرے کے تاثرات آپ کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ہر ایک سیکنڈ میں آٹھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں ،ہمیں شکر اداکر نا چاہیئے کہ ہمارا شمار ان فراد میں نہیں۔مختلف لوگوں سے بات کرنا اپنے پیغا م کو دوسروں تک پہنچانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔معروف قانون دان ضیاء اعوان نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا میں امدادی کام کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر آتا ہے ،پہلے نمبر پر امریکہ جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان کا نام آتاہے۔

ہمارے یہاں امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جاتا ہے اور اس مد میں ایک خطیر رقم جمع ہوتی ہے لیکن اس کے صحیح استعمال کو لیکر خدشات کا اظہار بھی کیا جاتاہے۔بالاکوٹ میں ہونے والے زلرلے کے متاثرین کے لئے سب سے زیادہ امداد کراچی سے جمع کی گئی تھی۔بدقسمتی سے کراچی کا شمار سونامی اور زلزلے جیسی خطرنات قدرتی آفات والی جگہوں میں ہوتا ہے،اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ شہر کا انفراسٹرکچر محفوظ سے محفوظ تر بنایا جائے اور مزید انفرااسٹرکچر ان تمام خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے اور کثیر المنزلہ عمارتوںکی تعمیر سے گریز کیا جائے ۔

جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ڈاکٹر محمد علی نے کہا کہ نوجوانوں کو مزید بااختیار بنانا چاہیئے ،کیونکہ نوجوان ہی ہمارے ملک کامستقبل اور اثاثہ ہیں اور ملک کی ترقی میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔شعبہ سیاسیات ینگ سوشل ریفارمرز کے ان اقدمات کی حوصلہ افزائی کرتاہے۔