کراچی ، موجودہ وقت میں ہم اسلام اور رسالت ٴ آب کی زندگی سے بہت دور ہو چکے ہیں،علامہ احمد جاوید

نوجوان نسل اسوة حسنہ کے بارے میں آگاہ نہیں ہے ، صادق اور امین وہ ہوتا ہے جو اپنی بات سے نہ بدلے،ممتاز مبلغ کا محسن انسانیت ؐ کانفرنس سے خطاب

اتوار 9 دسمبر 2018 20:20

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 دسمبر2018ء) ممتاز مبلغ علامہ احمد جاوید نے کہا کہ موجودہ وقت میں ہم اسلام اور رسالت ٴ آب کی زندگی سے بہت دور ہو چکے ہیں ہماری نوجوان نسل اسوة حسنہ کے بارے میں آگاہ نہیں ہے خالق کائنات نے رحمتہ العالمین کو ہمارے لیے عملی نمونہ بنا کر بھیجا تھا ، آپؐ کی اسوة حسنہ سے ہماری دوری نے ہمیں زلتوں اور رسوائیوں میں جھگڑا ، یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان اس پستی کا شکار ہیں۔

ان خیالات کا اظہارانہوں نے ہفتہ کی شام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیراہتمام محسن انسانیت ؐ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا علامہ رضی جعفر ، علامہ عباس کمیلی ، انیق احمد ، مفتی محمد زبیر، اور مفتی محمد عمران نے بھی خطاب کیا جبکہ صدیق اسماعیل، اسد ایوب اور فیصل نقشبندی نے نعت رسول مقبول ؐ پیش کی۔

(جاری ہے)

علامہ احمد جاوید نے کہا قرآن حکیم اور حدیث سے حوالے دیتے ہوئے حضورؐ کی زندگی کے مختلف گوشے حاضرین کے سامنے پیش کئے اور کہا کہ جب تک ہم سیرت نبی کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا لیتے دنیا اور آخرت میں سرخ رو نہیں ہو سکتے صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم نے محسن انسانیت کانفرنس کو مذہبی رواداری ، احترام انسانیت اور عورتوں کے حقو ق کے حوالے سے مرتب کیا اور ہماری کوشش ہے کہ معاشرے میں رواداری اور باہمی بھائی چارہ پروان چڑھے اور آرٹس کونسل کے زیر اہتمام مستقبل میں بھی اس قسم کی کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا رہے گا۔

علامہ رضی جعفر نے کہا کہ قرآن کریم نے آپ کے ذکر کو بلند کرنے کا دعوی کیا ہے اور آپ کا ذکر دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن پوری زمین پر اذان کی صورت میں مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ آپ ؐ کائنات کے وہ واحد انسان ہیں جسے اللہ نے اپنا محبوب قرار دیا ہے جس کے کلام کو اپنا کلام اور جس کے عمل کو اپنا عمل قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مصطفی ؐکی روشنی مقصود نہ ہوتی تو کائنات میں کوئی روشنی نہ ہوتی اور ہمیں اللہ رب العزت کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہمیں حضور اکرمؐ کی امت میں سے پیدا فرمایا۔

پوری کائنات چاہتی ہے کہ خدا اس سے راضی ہے جبکہ خدا نے ہمیشہ اپنے محبوب کے راضی ہونے کی بات کی ہے۔ آپ ؐ کی تعلیمات اتنی وسیع اور جامعہ ہیں کہ کائنات کے اختتام تک ہر چیز اور ہر عمل میں قابل استعمال ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔ علامہ عباس کمیلی نے کہا کہ ہم مسلمان ہونے کا دعوی ٰ تو کرتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی اسوة حسنہ کی پیروی کر رہے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں پر نکتہ چینی اور ان کی عیب جوئی کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا ہم آپ ؐ کی اتباع کا حق ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل ریاست مدینہ کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس کی بنیاد کیا تھی اس کی بنیاد اسوة حسنہ تھی کہ پورا مکہ پکار اٹھا تھا کہ آپ ؐصادق اور امین ہیں۔ صادق اور امین وہ ہوتا ہے جو اپنی بات سے نہ بدلے اور اپنے قول سے بدلنا بھی نہیں چاہیے ہمیں چاہیے کہ ہم جو بولیں سوچ سمجھ کر بولیں اور جب بول لیں تو پھر اس پر عمل بھی کریں۔

تیرہ برس حضور ؐ نے مکے میں اپنا عمل پیش کیا اور اس کے بات کہا کہ اب میرے عمل کو میرے قول سے ملا کر دیکھو۔ ہجرت کے وقت انہی مشرکین مکہ کی امانتیں آپ کے پاس تھیں جو آپ کے جانی دشمن تھے۔ انیق احمد نے حالات حاضرہ اور سیرت پاک پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سیرت کی کتاب قرآن کریم ہے اور آپ ؐ مجسم قرآن تھے۔ آپؐ نے اپنے اپنے سے ثابت کیا دکہ دنیا میں انسان نے زندگی کیسے گزارنی ہے اور عہد حاضر کا انسان بھی اگر اسی سیرت پر عمل کرے گا تو دنیا اور آکرت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپؐ نے تیرہ برس حکمت عملی میں گزارے اور اس دوران مکے مین کوئی مسجد تعمیر نہیں کی۔ کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ دین محض اخلاقیات کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی زمین پر اس کی حکومت قائم کرنے کا نام بھی ہے دین تو یہ ہے کہ جو رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس سے منع کریں اسے ترک کر دو۔ آپ ؐ نے ہجرت کے بعد جو پہلا کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی اور دین و دنیا کے تمام کام مسجد میں طے پاتے تھے آج پاکستان مین ڈھائی لاکھ مساجد ہیں اور ان کا معاشرے کی تعمیر میں کیا کردار ہی ذوق عبادت کے ساتھ ساتھ حسن معاشرت بھی لازمی ہے۔

مفتی محمد زبیر نے کہا کہ سیرت طیبہ کا پیغام زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والا شخص عہد رکے کہ وہ سیرت رسولؐ پر عمل پیرا ہو گا اور اس پر فقط رسمًً عمل نہیں کریں گے۔ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کے لیے لازمی ہے کہ سیرت طیبہ پر عمل کیا جائے قرآن میں الناس یعنی انسانیت کا تذکرہ 240مرتبہ آیا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ اے لوگو میں تو تمہاری فلاح کے لیے آیا ہوں۔

حضورؐنے جس طرح انسانیت کی داد رسی کی اس سے سیرت طیبہ بھری پڑی ہے۔ آپ نے ایک مزدور کے ہاتھوں کو چوم لیا تھا کیونکہ وہ حلال رزق کماتا تھا اور آپؐ بیٹیوں، ازواج، پڑوسیوں کے حقوق پر زیادہ زور دیا پڑوسیوں کے حقوق پر آپؐ نے اتنا زور دیا کہ بعض صحابہؓ کو یہ لگنے لگا کہ کہیں پڑوسیوں کو بھی جائیداد میں حصہ نہ دینے کا حکم آجائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا بڑا مسئلہ عدم بردشت اور رویوں کا مسئلہ ہے۔

مفتی محمد عمران نے کہا کہ اللہ نے قرآن کے ذریعے یہود و نصاری سے دلیل طلب کی اور ہر اس شخص سے بھی طلب کی جو اللہ سے محبت کا دعوی کرتا ہے۔ قرآن مسلمانوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ حضور ؐ کی اتباع کریں اور یہ اتباع کوئی ظاہر فائدہ دیکھ کر نہیں بلکہ آپ نے جیسے حکم دیا ویسے ہی ہے خواہ اس میں وقتی طور پر نقصان بھی نظر آتا ہو۔