احتساب عدالت نمب، العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری

منگل 11 دسمبر 2018 22:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 دسمبر2018ء) احتساب عدالت نمبر2کے جج محمد ارشدملک کی عدالت میں زیرسماعت العزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنس میں گذشتہ روز سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف پیش ہوئے ،ان کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے جس میں ان کاکہناتھاکہ الداررپورٹ کا کچھ حصہ رہ گیاتھااس کے باقی حصے پرہی دلائل کا آغازکروں گا،الدار آڈٹ رپورٹ کے بعد حسین نواز پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے،الدار رپورٹ ناکافی دستاویزات ہیں، 30 مئی 2017 کو حسین نواز جے آئی ٹی سامنے پیش ہوئے،اس کیس میں حسین نواز 5 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے،جے آئی ٹی نے حسین نواز کو ہل میٹل کی ادائیگیوں کی تفصیلات لانے کو کہا،نواز شریف تو اس کیس میں الدار آڈٹ بیورو کی رپورٹ پر انحصار ہی نہیں کر رہے ،استغاثہ نے اتنی کوشش بھی نہیں کی کہ الدار رپورٹ کی باضابطہ تصدیق ہی کروا لے،جن دستاویزات کی بنیاد پر الدار رپورٹ تیار ہوئی جے آئی ٹی نے وہ بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی،جے آئی ٹی کو اچھی طرح معلوم تھا وہ دستاویزات کہاں کس کے پاس ہیں،الدار آڈٹ بیورو سے کسی تصدیق کے لئے جے آئی ٹی نے کوئی رابطہ ہی نہیں کیا، دستاویزات تیار کرنے والے کو جب پیش ہی نہ کیا جائے اٴْس دستاویز کو صحیح یا غلط نہیں کہا جاسکتا،صرف الدار آڈٹ بیورو کی رپورٹ پیش کر دینے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جا سکتا ،تفتیش ٹیم نے تبصرے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا،کمپنی کا نام ہل ماڈرن انڈسٹری فار میٹل اسٹیبلشمنٹ تھا،جے آئی ٹی ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے نام سے ایم ایل اے بھیجتی رہی،غلط نام سے ایم ایل اے بھیج کر پھر سعودی عرب سے جواب کی توقع کی جارہی تھی،نام تک درست معلوم نہیں اور پھر کہتے ہیں ہماری تفتیش بہت کمال کی تھی،استغاثہ سے پوچھیں ہل میٹل سے متعلق انہوں نے کیا تفتیش کی ہل میٹل کتنے میں بنی اور باقی تفصیلات اب بھی انہیں معلوم نہیں ،ان کی تمام تفتیش شریک ملزمان سے متعلق ہے،نواز شریف سے متعلق انہوں نے کیا تفتیشی کی العزیزیہ اور ہل میٹل سے متعلق نام کی حد تک بھی درست معلومات حاصل نہیں کیں،اس موقع پر عدالت کے جج محمد ارشدملک نے وکیل صفائی کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اپنے کیس سے متعلق بنیادی نقاط تک ہی محدود رہیں تو مناسب ہے،کئی بار ایسا ہوتا ہے وکلا اصل نقطے سے ہٹ جاتے ہیں،ٹیچر بچوں کو فیصل آباد لے جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ ہیں 8بازار لیکر جہاں جائیں نظر گھنٹہ گھر پر ہی رکھیں تاکہ گم نہ ہوں،عدالت نے خواجہ حارث کو اپنے دلائل آگے بڑھانے کی ہدایت کی جس پر وکیل صفائی نے کہاکہ نواز شریف نے ہل میٹل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں دی،اس پر عدالت نے کہاکہ میں آپ کی بات سمجھ چکا ہوں،آپ ان دستاویزات پر انحصار نہیں کررہے،دوسرا جے آئی ٹی نے اس وقت کی تفصیلات مانگی جب ہل میٹل قائم نہیں ہوئی تھی، تیسری بات ایم ایل اے کا جواب نہیں آیا،یہ ساری باتیں سمجھ گیا ہوں آپ اب آگے بڑھیں،جس پر وکیل صفائی نے دلائل آگیجاری رکھتے ہوئے کہاکہ واجد ضیائ کے مطابق نوازشریف نے کے آئی ٹی کو بتایا کہ العزیزیہ اسٹیل کے تین شراکت دار تھے ،نوازشریف نے کہا کہ میرا خیال ہے عباس شریف العزیزیہ میں شراکت دار تھے ،نوازشریف نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ العزیزیہ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم تین شراکت داروں میں تقسیم ہے،اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوازشریف کو براہ راست اس کا علم نہیں تھا ،اس ہر عدالت کے جج محمد ارشدملک کاکہناتھاکہ میرا خیال ہے کا مطلب ہوتا ہے کہ میرے اندر سے ، یہ سنی سنائی بات میں نہیں آتا ،اس بات پر معاونت کردیں کہ میرا خیال ہے سنی سنائی بات میں آتا ہے یا نہیں ، جس پر خواجہ حقرث نے کہاکہ ''میرا خیال ہے '' کا مطلب غیر یقینی صورتحال کے زمرے میں آتا ہے ،جے آئی ٹی نے تسلیم کیا کہ نوازشریف کا بیان سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھا ،جس پر عدالت نے کہاکہ قوم اور قومی اسمبلی کی تقریر میں تو اس بات کا ذکر ہی نہیں ہے ،اس عدالت سے پہلے نوازشریف نے کہیں اور بھی یہ موقف اپنایا کہ ان کا العزیزیہ سے کوئی تعلق نہیں جس پر وکیل صفائی نے جواب دیاکہ سی ایم اے 7244 میں نوازشریف نے یہ موقف اپنایا ہوا ہے،نوازشریف نے کہیں بھی یہ موقف نہیں لیا کہ یہ ان کی جائیداد ہے،جے آئی ٹی نے اس بات کی تحقیق نہیں کی کہ العزیزیہ کا منافع عباس شریف اور رابعہ شریف کو منتقل ہوا،اس بات کی بھی تحقیق نہیں کی گئی کہ العزیزیہ کی فروخت کے بعد حاصل ہونے والی رقم تقسیم ہوئی،عدالت جے آئی ٹی میں دئیے گئے بیانات کو مانتی ہے تو جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں ہے جس پر عدالت نے کہاکہ بحث کرنے کے بعد خواجہ صاحب کو خود لگتا ہے کہ میں جے آئی ٹی میں بیانات تسلیم تو نہیں کررہا،بحث کے دوران پھر انہیں کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ،اس پر وکیل صفائی کاکہناتھاکہ شریک ملزمان کے بیانات اور فراہم کی گئی دستاویزات پر نوازشریف کیخلاف کیس بنا دیا گیا،کمپنی ان کی ، بزنس ان کا ،دستاویزات ان کی ،اور وضاحت ہم دیں ،اس پر نیب پراسیکیوٹرنے خواجہ حارث کو جواب دیاکہ منافع آپ کا ،خواجہ حارث نے کہاکہ استغاثہ کا کیس تو یہ ہے کہ نوازشریف ایچ ایم ای کے اصل مالک ہیں،نوازشریف جب جے آئی ٹی میں پیش ہوئے تو ان سے اس حوالے سے سوال ہی نہیں کیا گیا ،نوازشریف سے یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ ایچ ایم ای کیسے قائم ہوئی ،پیسہ کہاں سے آیا ،جے آئی ٹی کے پاس بھی ایچ ایم ای کے حوالے سے نوازشریف سے کہنے پوچھنے کیلئے کچھ نہیں تھا ،وکیل صفائی کاکہناتھاکہ حسین نواز نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے،میاں محمد شریف نے حسین نواز کو سرمایہ دیا،گلف اسٹیل ملز کا قیام میاں شریف نے کیا،طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی دار تھے،گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شئیرز فروخت کیے،باقی 25 فیصد طارق شفیع کے زریعے فروخت کیا،گلف اسٹیل ملز کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز کردیا،نوازشریف نے اس کاروبار میں حصہ نہیں لیا،تمام کاروبار میاں محمد شریف چلاتے تھے ،نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں تھا ،میاں محمد شریف نے اپنے بے نامی دار طارق شفیع کے زریعے گلف اسٹیل لگائی ،گلف اسٹیل کے 75فیصد شئیرز 1978میں فروخت ہوئے 1980 میں بقیہ 25 فیصد شئیرز بھی آہلی اسٹیل کو فروخت کردئیے گئے ،میاں شریف کو شیئرز کی فروخت سے 12ملین درہم حاصل ہوئے ،نوازشریف گلف اسٹیل سے متعلق کسی ٹرانزکشن کا حصہ نہیں رہے،گلف اسٹیل کے قیام کے دوران نوازشریف صرف ایک یا دو بار یو اے ای گئے ،میاں محمد شریف نے 12 ملین درہم جابر بن جاسم کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں انوسٹ کیے ،میاں محمد شریف حسین ،حسن اور اپنے دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے ،گلف اسٹیل، العزیزیہ اسٹیل اور ہل میٹل سے متعلق تمام معلومات حسن اور حسین نواز کی فراہم کردہ ہے ، نوازشریف کا ان تمام کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں رہا ،جے آئی ٹی کی تمام کارروائی تفتیش کے دائرے میں آتی ہے ،جے آئی ٹی کی رپورٹ اور قلمبند کئے گئے بیانات کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا،حسین نواز 2001 میں 29 سال اور حسن نواز 25 سال کے تھے ،جے آئی ٹی کی طرف سے حسن اور حسین نواز کے نوازشریف کے زیر کفالت ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ، نوازشریف کا قوم اور قومی اسمبلی سے خطاب کا مقصد اپنے خاندان سے متعلق وضاحت دینا تھا،گلف اسٹیل ملز، العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے متعلق حسن اور حسین نواز کے بیانات نوازشریف کے خلاف استعمال نہیں کیے جاسکتے،جے آئی ٹی کو دیے گئے بیانات بچوں نے اپنے کاروبار سے متعلق دیے،نوازشریف اس کاروبار میں شریک نہ تھے،گلف اسٹیل کے قیام کے دوران نوازشریف صرف ایک یا دو بار یو اے ای گئے ،میاں محمد شریف حسین ،حسن اور اپنے دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے ،گلف اسٹیل، العزیزیہ اسٹیل اور ہل میٹل سے متعلق تمام معلومات حسن اور حسین نواز کی فراہم کردہ ہے ، نوازشریف کا ان تمام کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں رہا ،حسن اور حسین کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کی بنیاد پر خطاب اور تقریر کی گئی،ایم ایل اے کا جواب نیب آرڈیننس کی سیکشن 21 جی پر پورا نہیں اترتا،ایم ایل اے کے جواب میں نہیں بتایا گیا کہ کس نے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی اس موقع پر عدالت کے جج محمد ارشدملک نے کہاکہ جو الیکشن ہار جائے یا کسی کا کوئی مر جائے تو سو بندوں کو بات سنا کر بھی اس کا دل نہیں بھرتا ،بات ایک ہی ہوتی ہے لیکن وہ ہر آنے والے کو وہ دوبارہ دوبارہ سناتا ہے ،آپ کی موجودگی میں دلائل کا خلاصہ لکھوانے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کی تسلی ہوجائے ،خواجہ حارث نے کہاکہ قطری خطوط سے نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں ہے،قطری شہزادے نے اپنے پہلے خط میں جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کو لکھے گئے خطوط کی تصدیق کی ،قطری شہزادہ شامل تفتیش ہونے کیلئے تیار تھا لیکن جے آئی ٹی نے حکمت عملی تبدیل کرلی،جے آئی ٹی نے شہزادے کو خط میں تفتیشی سیشنز کے بارے میں لکھا ،جے آئی ٹی اور العزیزیہ ریفرنس کے تفتیشی افسر نے قطری شہزادے کا بیان قلمبند کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی،اس موقع پر خواجہ حارث کی معاون عائشہ حامد اٹھ کر روسٹرپر آگئیں جس پر عدالت کے جج نے کہاکہ کیا ہم کوئی غلطی کررہے ہیں جو آپ اٹھ کر آگے آگئی ہیں،جس پر انہوں نے جواب دیاکہ نہیں ایسی بات نہیں ہے جس پر عدالت کے جج محمد ارشدمک نے کہاکہ ہم اکثر جب انگریزی کی غلطی کریں تو آپ بولتی ہیں،میں سمجھا آج بھی کوئی انگریزی کی غلطی ہوگئی،جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے خواجہ حارث نے کہاکہ نیب نے نوازشریف کا بیان قلمبند کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کی ،میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد نوازشریف نے تفتیشی افسر کو اپنا جواب بھجوایا،عدالت نے مزید سماعت آج تک کیلئے ملتوی کردی آج بھی خواجہ حارث اپنے حتمی دلائل جاری رکھیں گے۔

بشارت راجہ