کراچی میں گھریلو کمرشل صارفین اور چھوٹی صنعتوں کیلئے گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ،ْوزیر پٹرولیم غلام سرور خان

سندھ کے سی این جی سٹیشنوں کو گیس کی صورتحال بہتر ہونے پر فراہمی شروع کردی جائے گی ،ْقومی اسمبلی میں اظہار خیال احتساب کے نام کو کچرا پھینک کر گندا کیا جارہا ہے‘ یہ صورتحال مارشل لاء کے زمانے میں ہوتی ہے‘ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا ،ْ سید نوید قمر سابق حکومت نے ورثے میں بدترین معاشی صورتحال چھوڑی پارلیمنٹ کی رکنیت کو کرپشن چھپانے کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے ،ْ شفقت محمود

بدھ 12 دسمبر 2018 17:36

کراچی میں گھریلو کمرشل صارفین اور چھوٹی صنعتوں کیلئے گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ ..
اسلا م آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 دسمبر2018ء) وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا ہے کہ کراچی میں گھریلو کمرشل صارفین اور چھوٹی صنعتوں کیلئے گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ،ْ سندھ کے سی این جی سٹیشنوں کو گیس کی صورتحال بہتر ہونے پر فراہمی شروع کردی جائے گی۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ سندھ میں 80 فیصد گیس کی پیداوار 80 فیصد ہے۔

سندھ میں تمام سی این جی سٹیشن تاحکم ثانی بند کردیئے گئے ہیں اور عام صارفین کو بھی گیس کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سندھ کے پانی کے بعد گیس بھی بند کی جارہی ہے۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ سندھ کی گیس بند کرنا آئین کے آرٹیکل 258 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے جواب میں وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ کراچی میں گھریلو صارفین‘ کمرشل صارفین اور زیرو ریٹڈ صنعتوں کے لئے گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہے ،ْاکتوٹر میں ہم نے انہیں نوٹس دیا تھا کہ آپ متبادل توانائی پر آجائیں۔

(جاری ہے)

سندھ کے سی این جی سٹیشنوں کو جونہی صورتحال بہتر ہوتی ہے گیس کی فراہمی شروع کردی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کنہڑ اور بعض دیگر گیس کے کنوئوں میں سے گیس کی فراہمی میں کمی کے باعث یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 258 کو پامال کیا جارہا ہے۔ ہم نے کسی مخصوص سیکٹر کی بات نہیں کی ہم نے پورے صوبے کے آئینی حق کی بات کی ہے۔

اس کے جواب میں وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ آئین کے اس آرٹیکل کی وضاحت کے لئے ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے یہ مسئلہ عدالت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان معاملات پر ہماری وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات طے ہے۔ تمام مسائل کا حل نکالا جائے گا۔نکتہ اعتراض پر سید نوید قمر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق اس ایوان کے رکن ہیں ان کے پروڈکشن آرڈر فوری طور پر جاری کئے جائیں۔

وہ 7 لاکھ لوگوں کے نمائندے ہیں۔ ان کو عوام کی نمائندگی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ تب سے ارکان اس زد میں آرہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ یا تو آئندہ سیشن اڈیالہ جیل میں رکھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کے نام پر کچرا پھینک کر گندا کیا جارہا ہے۔ یہ صورتحال مارشل لاء کے زمانے میں ہوتی ہے۔ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی کارروائی شروع کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ حکومت پر تنقید سے قبل شاہد خاقان عباسی کو یہ سوچنا چایے کہ وہ ورثے میں ہمارے لئے کیا چھوڑ کر گئے ہیں ساڑھے 18 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ خسارہ‘ ساڑھے 12 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہمارے ذمہ چھوڑ کر گئے۔ بدترین معاشی صورتحال ہمیں سابق حکومت سے ورثے میں ملی۔ 1980ء سے شروع کریں اور بتائیں کہ اس وقت کس کے کیا اثاثے تھے اور اب کتنے ہیں۔

اثاثوں اور ٹیکسوں کی تفصیلات 1980ء سے مل سکتی ہیں۔ بعض سابق وزراء اعظم کے ٹیکس ریٹرنز کی ہمارے پاس تفصیلات موجود ہیں۔ سابق وزیراعظم نے 1980ء میں صرف 534 روپے ٹیکس دیا۔ بہتر ہے کہ اس معاملے پر ایوان آگے بڑھے۔ یہ ایوان ہم سب کے لئے مقدس ہے۔ تاہم پارلیمنٹ کی رکنیت کو کرپشن چھپانے کے لئے ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ایک تہائی آئین میں ترمیم کی گئی۔ اس وقت نیب کا قانون کیوں تبدیل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا کیونکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہی نہیں تھا کہ ان کے گریبان پر بھی ہاتھ پڑ سکتا ہے۔ ہمیں مل کر قرارداد منظور کرنی چاہیے کہ جس نے بھی اس قوم کا ایک روپیہ کھایا اس کو معافی نہیں ملے گی۔