حکومت کاروباری شعبہ کی سہولت کیلئے ٹیکسوں میں کمی اور ریفنڈز کی ادائیگی کا موزوں طریقہ وضع کرے، لاہور چیمبر

بدھ 12 دسمبر 2018 19:43

حکومت کاروباری شعبہ کی سہولت کیلئے ٹیکسوں میں کمی اور ریفنڈز کی ادائیگی ..
لاہور۔12 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 دسمبر2018ء) لاہور چیمبر کے صدر الماس حیدرنے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کاروباری شعبہ کو دبائو سے باہر لانے کے لیے ٹیکسوں کی تعداد میں کمی اور ریفنڈز کی ادائیگی کیلئے موزوں طریقہ کار وضع کرے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے طریقہ کار کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی 173ہے ۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کاروباری برادری سال میں 47مرتبہ مختلف نوعیت کے ٹیکس ادا کرتی ہے ، اس کے مقابلے میں ہانگ کانگ کے تاجر سال میں تین، یو اے ای چار، آئرلینڈ نو، ملائشیاآٹھ، انڈیا تیرہ اور سری لنکا کے تاجر سال میں 36مرتبہ ٹیکس ادا کرتے ہیںاور یہ ممالک ہیں جن کے ساتھ عالمی منڈی میں پاکستان کا مقابلہ ہے۔

(جاری ہے)

الماس حیدر نے کہا کہ پاکستان میں ایک کمپنی جو چاروں صوبوں میں آپریشنل ہو، اسے سال میں پانچ مرتبہ کارپوریٹ انکم ٹیکس، بارہ مرتبہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ، بارہ مرتبہ سوشل سکیورٹی، ایک مرتبہ ایجوکیشن سیس، ایک مرتبہ پراپرٹی ٹیکس، ایک مرتبہ وہیکل ٹیکس، ایک مرتبہ سٹیمپ ڈیوٹی اور ایسے ہی کئی دیگر ٹیکسزادا کرنے پڑتے ہیں۔

لاہور چیمبر کے صدر نے تجویز پیش کی کہ کہ اولڈ ایج بینیفٹ ، ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ اور صوبائی سیلز ٹیکس سال میں صرف ایک مرتبہ وصول کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پروفیشنل اور پراپرٹی ٹیکس کو اکٹھا کردیا جائے، اسی طرح وفاقی اور صوبائی سیلز ٹیکس بھی یکجا کردینے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ کاروباری برادری کو کریڈٹ کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور انٹرنیٹ و موبائل بینکنگ کے ذریعے ٹیکسز جمع کروانے کی اجازت دی جائے۔

لاہور چیمبر کے صدر نے مزید کہا کہ دس ملین روپے سے پچاس ملین روپے تک کے ریفنڈز فوری ادا کردئیے جائیں ، مزید یہ کہ ریٹرنز کی فائلنگ کے دو ماہ کے اندر تمام ریفنڈز کلیئر کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام محکموں کو پابند کیا جائے کہ وہ الیکٹرانک فائلنگ اور آن لائن پیمنٹ کا سسٹم وضع کریں، فزیکل آڈٹ کم کرنے کے لیے رسک مینجمنٹ سسٹم بہتر کیا جائے۔ الماس حیدر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ان تجاویز پر عملدرآمد نہ صرف موجودہ ٹیکس دہندگان پر سے بوجھ کم کرے گا بلکہ نئے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی جبکہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے حوالے سے پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں بھی بہتری آئے گی۔